دور حاضر کا بہلول دانا۔۔۔ زاہد صدیق بخاری

اتوار 19 اپریل 2020

 Syed Atiq Ur Rehman Bukhari

سید عتیق الرحمن بخاری

بہلول داناسے آپ واقف ہونگے اس نام اور اس شخصیت سے وہ فقیر جوزمین پہ بیٹھ جاتا اور بے ترتیب، بکھرے تنکوں کو ترتیب دیتا کبھی کوئی شکل بناتا استفسار کرنے پر جواب دیتا کہ جنت بنا رہا ہوں اسکی جنت ایک ایسی جنت تھی جو دیکھنے والوں کی آنکھ سے پوشیدہ تھی۔آئیے آج آپ کو ایک ایسے فقیر سے ملواتے ہیں جو کم عمری میں ہی اپنی زمینوں میں چلا جاتا ہے اور وہاں ہاتھوں کی انگلیوں سے نقشہ بناتا ہے، تخیل میں ایک ایسی جنت بناتا ہے جو دیکھنے والوں کی آنکھ سے مخفی نہیں رہی بلکہ اسے تمام انسانیت نے دیکھا کہ وہ دنیا میں بھی اپنی آب و تاب کیساتھ ایک جنت کا منظر پیش کرتی ہے اور آخرت کے لیے بھی ایک جنت کی پیشین گوئی ہے۔

گجرات کی نواحی سرزمین پر جسے سر زمینِ بوکن کہتے ہیں وہاں پر یہ فقیر جنم لیتا ہے اس مردِ مومن کو اللہ نے وہ آنکھ عطا کی ہے جو بچپن سے ہی ایسے عظیم خوابوں کا تانا بانا بُنتی ہے جو ساری انسانیت کو ایسی تعبیر پیش کر سکے جس میں علم و آگہی کے چشمے جاری ہوں، حکمت کے موتیوں سے ایک عمارت بنی ہو، صبر و تحمل کی مٹی میں نیم شبی کے اشکوں کا عرق ملا کر خلوص و محبت کا وہ گارا تیار کیا گیا ہو جس سے تیار ہونے والی ہر دیوار، ہر بنیاد محبت، اخوت، اور ایمان کی خوشبو فراہم کر سکے۔

(جاری ہے)

اس فقیر کی آنکھیں اس خوف سے سونا نہیں چاہتی کہ ایسا نہ ہو نیند کا دورانیہ بڑھ جائے اور میرے خوابوں کا محل مسمار ہوجائے۔ پھر اسے خیال آتا ہے کہ ایک خواب کی تکمیل اور اسکی حفاظت بنا کسی حکمتِ عملی کے کیسے ممکن ہے؟  وہ اکیلا ہے چل پڑتا ہے اسی زمین کی جانب جہاں بیٹھ کر وہ ایسے نقشے تیار کیا کرتا جسے دیکھ کر سن کر اسوقت کے لوگ ایک وہم سمجھتے ہیں، ایک نہ پورا ہونے والا خواب سمجھتے ہیں، ایک ایسا گمان سمجھتے ہیں جسکی کوئی حقیقت ہی نہیں۔

وہ فقیر ایسے خیالات سے، ایسی نظروں سے گھبراتا نہیں اس پر کچھ کر گزرنے کا وہ جذبہ وہ جنوں طاری ہے جو اپنے خواب کی تکمیل کے لیے خاک کیساتھ خاک ہوجانے کا عزمِ مصمم کر چکا ہے۔خیر وہ فقیر اسی عزم و استقلال سے چلتا جاتا ہے اور بالآخر وہاں پر علم و حکمت کے چشمے کی بنیاد رکھ دیتا ہے یہ فقیر بے سرو سامانی کی حالت میں اتنا بڑا قدم یہ سوچ کر نہیں اٹھاتا کہ کسی کا حق مارنا پڑا تو مار لونگا، کوئی بھی راہ اختیار کرنا پڑی کر لونگااور منزل پر پہنچ جاؤں گا۔

نہیں، بالکل نہیں، بلکہ اس علم و آگہی کے سر چشمے پہ ابھی آکر دیکھ لیجیے، پانچ وقت بلند ہونے والی اذان کی آواز، ہر لمحہ تلاوتِ قران کی دلنشین آواز، تمام طلبا و طالبات کے سروں پر عزت کی نشانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اس چشمے کی بنیاد رکھنے والے نے رات کے پچھلے پہر اٹھ کر ایک کونے میں جائے نماز بچھا کر، دامن طلب پھیلا کر، اشکوں کے نہ تھمنے والے سیلاب میں آنکھوں کو ڈبو کر پوری رقت سے اس کارسازِ حقیقی کی منت کی ہے، اسکی بارگاہ سے ایک ایک اینٹ مانگ کر، ایک ایک ذرے کے مستحکم ہونے کی دعا مانگ کر اس چمن کو سینچا ہے،سیراب کیا ہے۔

جی ہاں! تو میں عرض کررہا تھا کہ وہ فقیر سفر کا آغاز کرتا ہے۔گھر میں ایک ہمشیرہ شانہ بشانہ چلنے کے لیے تیار ہے۔ اس علم و آگہی کے چشمے سے سیراب ہونے والے تشنہ لبوں کی بھوک، پیاس مٹانے کے لیے ملک و ملت کی وہ عالی حوصلہ بیٹی کمرِ ہمت باندھ کر کھڑی ہے اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کرتی ہے، پانی کا انتظام کرتی ہے باقی تمام ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔

اور یوں یہ فقیر ایک مونس و مددگار کے ساتھ ملکر اپنے سفر کا آغاز کر چکا ہے۔اس فقیر کی کیفیت سے واقف اسکے خیالات کا محرم اسکا رب اسکے لیے ایسی شریکِ حیات کا انتحاب کرتا ہے جو اس سے اپنی خواہشات کا مطالبہ نہیں کرتی، اس سے مال و دولت کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ اسکے خواب میں شریک ہوجاتی ہے اسکی تعبیر کی ہمسفر بن جاتی ہے، وہ خلوص و وفا کا پیکر چہرہ شناس بنکر بغیر بتائے اسکی روح کے سارے خیالات جانچ لیتی ہے یوں ایک چھوٹا سا کارواں بہت بڑی منزل کے لیے عازم سفر ہو جاتا ہے۔

علم و حکمت کا یہ شیدائی فقیر خود سے یہ وعدہ کرچکا ہے کہ ایک ایسا سر چشمہ قیام عمل میں لاؤں گا جس سے ہزاروں، لاکھوں لوگ سیراب ہونگے، لاکھوں علم کی طلب رکھنے والے اکتسابِ فیض کرینگے، کی تشنہ لبوں کو علم و حکمت کے جام ملیں گے۔وقت اپنی رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے اللہ کے حکم اور اذن سے یہ سارا سلسلہ رواں دواں ریتا ہے۔اس مردِ مومن کے اس چھوٹے سے کارواں کی شریک اسکی ہمشیرہ کو اللہ پاک ”بھیرہ شریف“ جیسے عظیم مرکزِ علم و عرفاں کے لیے منتخب کر لیتا ہے یوں وہ ملک و ملت کی بہادر اور باحیا بیٹی اپنے علم و حکمت کے عظیم سفر کا آغاز عظیم جذبے سے کرتی ہے۔

اس عظیم بیٹی کو ایک عظیم استاد میسر آتا ہے جسے دنیا ”جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری“ کے نام سے جانتی ہے ایسے استاد کی معیت اس عظیم بیٹی کے لیے سونے پر سہاگہ ثابت ہوتی ہے۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی مراحل انتہائی شاندار کامیابی کیساتھ طے کرنے کے بعد اللہ کی ذات اس محنتی اورمخلص، باحیا و باوفا بیٹی کا انتحاب بحثیتِ استاد کرلیتی ہے اور آج بھی وہ وفا شعار اپنے فرائض اسی محنت اور لگن سے سر انجام دے رہی ہے۔

ادھر اس مردِ مومن کا سفر بھی جاری و ساری ہے جسے جب خالقِ کائنات اولاد جیسی نعمت سے نوازنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ عالی ہمت وضو کرتا ہے، جائے نماز بچھاتا ہے، ہاتھ اٹھاتا ہے اور برستی آنکھوں سے ہاتھ جوڑے التجا کرتا ہے، اے میرے پاک پروردگار!!اگر آنیوالا تیری راہ کے لیے قبول ہے اگر تو اسے اپنے لیے منتخب کر چکا ہے تو اسے بھیج دے ورنہ میں ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں اسے اپنے پاس رکھ لے۔

یہ جذبہ ایمانی ہے اس مردِ مومن کا جو محرومی کا انتخاب تو کر لیتا ہے مگر راہ خدا میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا سفر جاری رہتا ہے اس علم و حکمت کے سلسلے سے ایسے عظیم استاد منسلک کر دیے جاتیہیں جو اس مردِ قلندر کا ساتھ دینے کے لیے بلند جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں اب یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے،
میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ چلتے گئے کارواں بنتا گیا

 الغرض اس کارواں میں شامل اساتذہ کی بے مثال قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔

منظر تو دیکھیے!رات کا وقت ہوتا ہے یہ مرد مومن اٹھتا ہے اپنے بچوں کے زیرِ استعمال واش رومز کی صفائی پوری لگن سے کرتا ہے، جوتے ترتیب سے رکھتا ہے، پھر وضو کرتا ہے اور اللہ سے اگلے دن کے لیے خیر مانگنے میں مشغول ہوجاتا ہے، المختصر وہ اپنے سارے سفر کا ہر لمحہ اس رب کائنات سے مدد لیکر طے کرتا ہے، جذبے، محبت اور علم سے عشق کا یہ عالم ہے کہ طالب علموں کی خدمت کرتا ہے چھوٹے بچوں کے بستر تک صاف کرتا ہے، کبھی ماں کا روپ دھار لیتا ہے کبھی باپ کی شکل میں ان بچوں کو اپنی آغوش میں لیے پھرتا ہے۔

۔۔
ہم نے کی ہے چمن کی آبیاری کچھ اسطرح
کبھی خون بن گئے،کبھی آب، کبھی سائباں

سفر پوری آب و تاب سے جاری رہتا ہے اس مردِ مومن کے پائے استقلال میں رتی بھر بھی لغزش نہیں آتی بلکہ جذبہ، ہمت اور حوصلہ ہر روز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ایک وقت آتا ہے کچھ لوگ اس علم و حکمت کے فیض خانے پر تشریف لاتے ہیں اور اس مردِ مومن سے سوال کرتے ہیں کہ آپ اپنے ادارے کے یتیم بچوں اور بچیوں کا نام لکھوائیے ہم عطیات دینا چاہتے ہیں وہ عزم و وفا کا پیکر بڑی جرأت سے جواب دیتا ہے کہ میرے ادارے میں کوئی بچہ یتیم نہیں ہے، سوال پھر کیا جاتا ہے وہ اسی حوصلے اور ہیبت سے کہتا ہے کہ میں نے کہا نا کہ یہاں کوئی بچہ یتیم نہیں ہے، سوال کرنے والا حیران و ششدراور پھر پوچھتے ہے کیسے ممکن ہے کہ جہاں اتنے طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہوں وہاں کوئی بچہ یتیم نہ ہو اس مرد مومن کا جرأت مندانہ جواب جو کہ تاریخ کے صفحات پہ یکتارہے گا کہ۔

۔۔۔سنوجب تک زاہد صدیق زندہ ہے اس ادارے میں پڑھنے والا کوئی بچہ یتیم نہیں ہو سکتا، جی ہاں دور حاضر کے اس بہلول کو اب دنیا سید زاہد صدیق بخاری کے نام سے جانتی ہے اور اہل عشق و محبت کی زباں میں سفیر ضیاء الامت کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی نابغہ روزگار شخصیات کے بارے میں علامہ محمد اقبال کہہ گئے ہیں کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا، اللہ کریم آپ کی عمر میں برکتیں عطا فرمائے اورآپ کے ادارے ایسے ہی پھلتے پھولتے رہیں۔  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :