
کیا ممکن ہے کہ کچھ درخت قبروں کے لیے بچ جائیں؟
پیر 30 مارچ 2020

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
ان کو مارکر، ان کا صفایا کرکے ہم اپنے آرام دہ راستوں کے لیے کالی اور بے جان سڑکیں بناتے ہیں۔
وہ ہمارے دوست، پیارے دوست درخت ہیں جنہوں نے کبھی گلہ نہیں کیا اور ہمیشہ اپنی نسل بڑھاتے جارہے ہیں کہ انسان اپنی آسائشِ زندگی اور آرائشِ زندگی میں اضافہ کرسکے۔ وہ ہمارے دوست پیارے دوست درخت ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ انسان ہمیشہ کی طرح ناشکرا، احسان فراموش اور بے رحم ہے۔ ہمیں اتنی تکلیف بھی گوارا نہیں کہ اپنے دوست کا سرقلم کرنے کے بعد اس کی جگہ نیا بیج بو دیں تاکہ نیا جنم لینے والا درخت بچہ ہمارے بچوں کے کام آسکے۔ ذرا اندازہ لگائیے، ذرا سوچئے انسان کی خود غرضی کا۔ ہم درختوں کی ہمدردی کے گیت گاتے ہیں۔ ان کی پرورش کے لیے بڑی بڑی تنظیمیں بناکر فنڈز اکٹھا کرتے ہیں۔ ان سے دوستی کے لیے دن مناتے ہیں لیکن وہ سب باتیں زبانی کلامی ہوتی ہیں۔ اکٹھا کیا گیا فنڈ ہم اجلاسوں اور پارٹیوں کی صورت میں کھا پی جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ درخت کی یاد میں دن منانے کے لیے ہم اپنے فنکشن بھی ریت بجری اور سیمنٹ کے بنے ہوئے بڑے بڑے پلازوں میں کرتے ہیں۔ آج تک شاید کبھی کسی فرد، کسی سرکاری افسر یاکسی NGO کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ درختوں سے اپنی محبت نبھانے کے لیے ان کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کراپنی میٹنگ کریں۔ کبھی پارلیمنٹ یا کابینہ کا اجلاس درختوں کے سائے میں نہیں ہوا۔ ہم اگر غور کریں تو جنت میں باقی نعمتوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی ہمارے ساتھی ہوں گے اور اگر مزید غور کریں تودوزخ میں کوئی درخت نہیں بلکہ ایندھن کے لیے نافرمان انسان ہی استعمال کیے جائیں گے۔ ہم جنتی علامتوں کو کتنی بے دردی سے ضائع کررہے ہیں۔ جو نہ صرف قدرت کی ناشکری ہے بلکہ انسانوں کے لیے زندہ رہنے کا ایک لازمی جزو بھی ہے۔ درخت کے لیے ہرمذہب اور ہرنظریئے میں احترام پایا گیا ہے۔ مثلاً بدھا درختوں کے نیچے بیٹھ کر ہی گیان کرتے تھے۔ عیسائیت میں Christmas Tree کتنی اہمیت کا حامل ہے سب جانتے ہیں۔ اسلام میں بھی درختوں کی اہمیت اور افادیت کا بے پناہ ذکر ہے۔ Greek Mythology کے مطابق اچھے مرد اور اچھی عورتیں مرنے کے بعد خوبصورت درختوں میں بدل جاتے ہیں۔ جب 1972ء میں اقوام متحدہ نے درختوں کی اہمیت کا دن منانے کا اعلان کیا، اگر اس وقت سے پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کے ماں باپ اس کے نام کا ایک درخت لگاتے، بچے کے ساتھ ساتھ اس کی بھی پرورش کرتے توآج پاکستان ایک ہری بھری ریاست ہوتا۔ دوسرا دفاعی نقطہ نظر سے بھی ایک کیموفلاجڈ ایریا ہوتا۔ اس کام کے لیے حکومتی آرڈر یا سرپرستی کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ہمیں اپنے انفرادی رویوں اور سوچوں میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔ نئے درخت لگانا تو ایک طرف، ہم نے پہلے سے اُگے ہوئے درختوں کے ساتھ بھی مالِ غنیمت میں آئی ہوئی لونڈی جیسا سلوک کیا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر قبر کے سرہانے درخت لگائیں تو جب تک وہ ہرا بھرا رہے گا اس وقت تک مردے کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے۔ آج کل جتنی تیزی سے ہم درختوں کو سزائے موت سنا رہے ہیں، کیا ممکن ہے کہ کچھ درخت قبروں کے لئے بچ جائیں؟ یا وہ بھی ہمیں IMF اور World Bank کی شرائط کے تحت Import کرنا پڑیں گے جن کا اعلان وزیر خزانہ حکومتی تالیوں کے شور کے دوران بجٹ میں کیا کریں گے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.