کشمیری منٹو کی روح کا سوال،نہرو کشمیر کب چھوڑیں گے؟

جمعرات 14 مئی 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

وہ 18جنوری 1955ء کا دن تھا جب ایک ایمبولینس ہسپتال میں تیزی سے داخل ہوئی۔ سٹریچر پر پڑے شخص کو جلدی جلدی ڈاکٹر تک پہنچایا گیا۔ اس کے منہ کے قریب لال رنگ کے قطروں کے کچھ داغ نمایاں تھے۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور مریض کے ساتھ آنے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ اس کی جگہ ہسپتال نہیں قبرستان ہے، یہ مرچکا ہے۔ ڈاکٹر کو کیا معلوم تھا کہ یہ مردہ کبھی ایک کشمیری بچہ تھا، جو اپنا بچپن امرتسر، جوانی لدھیانہ، علی گڑھ، دہلی اور بمبئی میں گزارتے ہوئے پختہ عمری میں پختہ ارادے کے ساتھ اپنے وطن پاکستان پہنچا تھا اور پھر یہاں سے کہیں نہیں گیا۔


 ڈاکٹر کا اردو کے ایک ممتاز قلم کار سعادت حسن منٹو کو نہ پہچاننے کا معاملہ اتنا معیوب نہیں تھا لیکن منٹو کو بہت سے ادیبوں، نقادوں اور حکومتِ وقت کے نہ پہچاننے کا معاملہ شاید بہت معیوب تھا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ مرچکا ہے۔ وہ اُس کے مردہ جسم کی بات کررہا تھا جس پر اس وقت کی حکومت اور بہت سے ادیب خوش ہوگئے ہوں گے کیونکہ وہ مردوں کو پسند کرنے کے باعث راجہ گدھ میں تبدیل ہوچکے تھے جس کا پتا ہمیں اکیسویں صدی میں چلتا ہے جو پاکستانی لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی کا پیغام لے کر آئی۔

محقق ڈاکٹر روش ندیم لکھتے ہیں کہ مجھے منٹو کے اندر ہمیشہ نشاة الثانیہ اور اٹھارہویں صدی کے یورپی ادیبوں کی سی باغیانہ تڑپ دکھائی دی ہے۔ سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے، نفسیاتی مریض ہونے اور ملک سے محبت نہ کرنے جیسے کارآمد روایتی الزامات لگائے جاتے رہے جن کی بنیاد پر اُس کا بے روزگار ہوجانا، سوسائٹی میں ناپسندیدہ شخص قرار پانا اور ذہنی اذیت میں چلے جانا ایک قدرتی امر تھا لیکن وہ ایک خالص کشمیری تھا، اسے خود پر اعتماد تھا، اسی لیے مانگے کی اکڑپر یقین نہیں رکھتا تھا۔

اُس نے تمام تر مقدمات، حاسد بہروپیوں اور تنگ دستی کے صحراؤں کا خوب مقابلہ کیا۔
 ممتاز دانشور، اردو کے معروف نقاد اور محقق پروفیسر فتح محمد ملک سعادت حسن منٹو پر لگائے گئے اعتراضات کے حوالے سے اپنی ایک تصنیف ”سعادت حسن منٹو ایک نئی تعبیر“ میں لکھتے ہیں کہ اپنی وفات سے نصف صدی بعد بھی منٹو اپنے نقاد کے انتظار میں ہے۔ ہماری تنقید اب تک منٹو کی اُسی شہرت کی اسیر چلی آرہی ہے جو بالکل ابتداء ہی میں منٹو کو مل گئی تھی۔

آغازِ کار سے لے کر پایانِ کار تک منٹو کا فن ایک مسلسل ارتقاء ہے مگر اُردو تنقید نے منٹو کے بارے میں ادبی رائے عامہ سے زیادہ اعتناء کیا ہے اور منٹو کی فکری نشوونما اور منٹو کے موضوعات کے تنوع سے بہت کم سروکار رکھا ہی۔ پاکستان بننے کے بعد منٹو کی تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں پروفیسر صاحب نے اپنی اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ پاکستان کا طلوع اپنے جلو میں نئی تخلیقی زرخیزی لایا تھا۔

منٹو ہمارے ان فنکاروں میں یگانہ و یکتا ہے جنہوں نے اس تخلیقی زرخیزی کو کام میں لانے کی طرف توجہ دی۔ پاکستان کے قیام نے منٹو کے فکرو احساس کی دنیا کو منقلب کرکے رکھ دیا تھا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی منٹو نے نئی زندگی کے نئے ممکنات کو کھنگالنا شروع کردیا تھا۔ اس تعمیری اندازنظر نے منٹو کو اپنے معاصرین کے ساتھ فکری تصادم اور نظریاتی پیکار میں بھی مبتلا کردیا تھا۔

 پروفیسرملک مزید لکھتے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ سعادت حسن منٹو نے کتاب سے زیادہ زندگی سے سیکھا ہے۔ وہ عمربھر اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھتے رہے۔ نئے تجربات اور گہرے مشاہدات سے انہوں نے ہمیشہ زندگی کی معنی خیز سچائیاں اخذ کیں اور ان کا انتہائی جرات سے اظہار کیا۔ اس سلسلے میں یہ بات انتہائی قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے برآمد ہونے والے انکشافات سے اپنے تصورات کو بارہا رد کردیا اور ان کی جگہ نئے تصورات اختیار کرلیے۔

اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں رونما ہونے والی تبدیلی ہے۔ ”سعادت حسن منٹو ایک نئی تعبیر“ میں منٹو کی پاکستان سے جذباتی وابستگی کے بارے میں تحریر ہے کہ سعادت حسن منٹو نے خود کو اگست سن سنتالیس میں پہچانا۔ 
سعادت حسن منٹو کا مَن کتنا مسلمان اور پاکستانی تھا اس بارے میں پروفیسر ملک نے اپنی اسی کتاب میں بیان کیا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ اسلام، ہادی اسلام اور پاکستان کے خلاف لوگ ایک عرصے تک زہر اگلتے رہیں گے لیکن اس زہرافشانی کے باوجود اسلام اور پاکستان کے اٹل حقائق اپنی جگہ پر قائم اور دائم رہیں گے۔

چنانچہ منٹو، بابو راؤ پاٹیل جیسے اسلام دشمن اور پاکستان مخالف قلم کاروں کے قلم کو غلاظت اور گندگی میں ڈوبا ہوا دیکھتے ہیں اور اُن کی تحریروں سے انہیں گھن آنے لگتی ہے۔
 سعادت حسن منٹو کے مَن میں کشمیر کتنا بسا ہوا تھا اس کا اندازہ ان کے ایک مضمون ”مرلی کی دھن“ میں ہوتا ہے جس میں وہ اپنے ایک بمبئی کے سابقہ جگری یار شیام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج چودہ اگست ہے۔

وہ دن جب پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے تھے۔ اِدھر اور اُدھر دونوں طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حملے اور دفاع کی تیاریاں بھی زوروشور سے جاری ہیں۔ میں شیام کی روح سے مخاطب ہوتا ہوں۔ پیارے شیام! میں بمبئی ٹاکیز چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ کیا پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر نہیں چھوڑ سکتے؟ ہے نا ہپ ٹلا بات؟ ڈاکٹر نے سٹریچر پر پڑے ہوئے سعادت حسن منٹو کو دیکھ کر کہا تھا کہ اس کی جگہ یہاں نہیں بلکہ قبرستان ہے۔

ڈاکٹر نے بالکل غلط کہا تھا کیونکہ منٹو کی جگہ اور کہیں نہیں پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل میں ہے۔ کشمیری لکھتے ہوں یا لڑتے ہوں، ان کا مقصد آزادی ہے، انسان کی آزادی، زبان کی آزادی، قلم کی آزادی۔ آزادی کی جدوجہد کرنے والے کبھی مردہ نہیں ہوتے، زندہ رہتے ہیں۔ لوگ انہیں کتابوں میں، تحریروں میں اور دلوں میں یاد رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں 11مئی کو سعادت حسن منٹو کی 108 ویں سالگرہ منائی گئی۔ گوگل نے بھی سالگرہ کے موقع پر منٹو کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے منٹو کا ڈوڈل جاری کیا۔ انٹرنیشنل سطح پر منٹو کی علمی خدمات کے اعتراف کے بعد بھی کشمیری منٹو کی روح اس سوال کا جواب لینے کو تڑپ رہی ہے کہ نہرو کشمیر کب چھوڑیں گے؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :