کیمبرج امتحان، نہ سمجھ آنے والی منطق یا نذرنیاز؟

جمعہ 30 اپریل 2021

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

فلسفے کی ایک قدیم کتاب میں درج ہے کہ جھوٹ بولنے کی اجازت صرف حکمرانوں کو ہونی چاہیے جس کا مقصد دشمنوں کو شکست دینا یا عوام کی فلاح و بہبود ہو۔ ہمارے حکمران فلاسفی کی اس گہری بات پر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ٹھیک ٹھیک عمل کررہے ہیں۔ وہ تبدیلی یہ ہے کہ جھوٹ بولنے کا مقصد دشمنوں کو شکست دینے کی بجائے عوام کو شکست دینا ہو اور عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے جھوٹ اپنی حکمرانی کی فلاح و بہبود کے لیے بولا جائے۔

اس کے لیے صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ بچے نہ صرف انسانوں بلکہ ہر جاندار شے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ انسانوں کے بچے اور نوجوان اگر تعلیم حاصل کررہے ہوں تو وہ اپنی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ بس اب یہیں رکیئے اور جواب دیجئے کہ جو حکمران اپنے سب سے قیمتی سرمائے کو بیماری اور موت کے حوالے کررہے ہوں تو کیا وہ حکمران اپنی قوم کے دوست ہیں یا دشمن کے دوست ہیں؟ یقینا آپ کو فیصلہ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔

(جاری ہے)

بالکل ویسے ہی جیسے تیرھویں صدی میں چنگیز خان کو اپنے مفتوحہ علاقوں میں اُس علاقے اور اپنی قوم سے غداری کرکے چنگیز خان کا ساتھ دینے والے دوستوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے دقت پیش نہیں آتی تھی۔ چنگیز خان کا ساتھ دینے والے قوم کے غداروں کاسر اُن میناروں کی بنیادوں میں شامل ہوتا تھا جسے تاریخ چنگیز خان کے دشمنوں کے سروں کے میناروں کے نام سے یاد کرتی ہے۔

پاکستان کی وفاقی وزارتِ تعلیم نے قوم کے سب سے قیمتی سرمائے کے ایک اہم حصے کو تعلیمی بیوپاریوں اور سوداگروں کے منافع کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ملک میں اولیول اور اے لیول کے سٹوڈنٹس کی کثیر تعداد موجود ہے جن کے امتحانات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اِن امتحانات کے لیے سٹوڈنٹس کو امتحانی مراکز میں جانا پڑتا ہے۔ ایسے سٹوڈنٹس اور ان کے والدین شدید غم و غصے کے ساتھ چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ تعلیمی پالیسی ساز اپنی قوم کی نئی نسل کی فلاح و بہبود کررہے ہیں یا سانپ کی فطرت پر چلتے ہوئے اپنے ہی بچوں کو ہڑپ کرنے کا انتظام کررہے ہیں؟ پاکستان میں کورونا نے وہی تباہی مچائی ہوئی ہے جو دنیا کے دیگر حصوں میں موجود ہے لیکن اِس معاملے میں بھی ہمیں اپنے حکمرانوں کے طرزِعمل میں دنیا کے بعض ممالک سے دو طرح کا فرق محسوس ہوگا۔

پہلا یہ کہ جھوٹ بول کر اِس بیماری کی شدت کو اپنی عوام سے چھپایا گیا۔ دوسرا یہ کہ اِس بیماری کی شدت کو کنٹرول کرنے کے لیے فیصلے سیاسی بنیادوں پر کیے گئے یا نااہلی کی بنیادوں پر دیر سے کیے گئے۔ دیر سے کیے گئے فیصلوں میں ہرقسم کے سیاسی اجتماعات، شادی بیاہ، تقریبات، اِن ڈور آؤٹ ڈور ڈائننگ، اسمبلیوں کے اجلاس پر پابندی، مارکیٹوں میں تعطیلات، کاروباری اور دفتری اوقات و حاضری میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔

ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کے لیے فوج کو بلالیا گیا ہے۔ فوج کو اُسی وقت بلایا جاتا ہے جب معاملات سِول اتھارٹی کے ہاتھوں سے نکل جائیں۔ اس سے ملک میں کورونا کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف قوم کے سب سے قیمتی سرمائے کے ایک اہم حصے یعنی کیمبرج کے سٹوڈنٹس کو امتحانی مراکز میں جانے کے لیے آرڈر دیا گیا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اِس نوٹی فکیشن کے مطابق ہر امتحانی مرکز میں صرف پچاس سٹوڈنٹس ہوں گے۔

اِس نوٹی فکیشن کی منطق سمجھ سے باہر ہے کیونکہ اولیول اور اے لیول کے ہزاروں سٹوڈنٹس کے لیے سینکڑوں امتحانی مراکز اور امتحان کا انتظام کیسے ممکن ہوگا اور اضافی اخراجات کا بوجھ کس پر ہوگا؟ دوسرا یہ کہ امتحانی مراکز کے باہر سٹوڈنٹس کا آپس میں اکٹھا ہونا کیسے روکا جائے گا؟ تعلیمی حکام کو یہ بات بتانی ہوگی کہ ہماری معاشرتی روایات کے مطابق سٹوڈنٹس امتحان سے پہلے اور بعد میں امتحانی مراکز کے باہر اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ امتحانات کو ڈسکس کرتے ہیں۔

تو کیا ایسی ڈسکشن کو ختم کروانے کے لیے سٹوڈنٹس کو پولیس اور فوج سے ڈنڈے مروائے جائیں گے؟ اِس سارے قصے میں یہ بات بہت حیران کن ہے کہ کیمبرج انٹرنیشنل بورڈ نے دنیا بھر کے دس ممالک میں کورونا کی وجہ سے موجودہ امتحانات منسوخ کردیئے ہیں۔ مزید یہ کہ کیمبرج انٹرنیشنل بورڈ نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک برطانیہ کے اندر اور اُن ممالک میں جہاں کورونا کی وجہ سے فزیکلی امتحان لینا ممکن نہیں ہے وہاں ٹیچر اسیسمنٹ فارمولے کوترجیح دی جائے گی۔

اصل بہادر حکمران اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بے خوف اقدامات کرتے ہیں خواہ انہیں کوئی سہولت حاصل ہویا نہ ہو۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کیمبرج انٹرنیشنل بورڈ نے امتحانات کے لیے سہولت بھی دے دی لیکن ہمارے حکمران اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ کیا یہ اصلی بہادر حکمران ہیں؟ افلاطون نے اپنی کتاب دی ریپبلک میں ایک جگہ لکھا کہ ایک زمانے میں یونان جس کے ہرفرد کے ساتھ بہادری اور شجاعت جڑی ہوتی تھی مگر وہ اپنے قائدین کے خلوص پر یقین کرتے ہوئے سرجھکائے آگے بڑھتے چلے جاتے تھے۔

پھر وہ زمانہ آیا جب یونانی سوال کرنے لگے کہ کیا یہ نشے کی آنکھیں اور ہرن کا دل رکھنے والے حکمران ہیں؟ ہمارے کئی لوگوں نے موجودہ حکمرانوں کے تبدیلی کے نعرے کو پسند کیا اور قائدین کے خلوص پر یقین کرتے ہوئے سرجھکائے آگے بڑھتے چلے گئے۔ کیا وہی لوگ اب یونانیوں والا مندرجہ بالا سوال دہرانے میں حق بجانب نہیں ہوں گے؟ اولیول اور اے لیول کے سٹوڈنٹس کے والدین یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ موجودہ امتحانات کے دوران اگر کسی سٹوڈنٹ کو کورونا ہوگیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری وفاقی وزارتِ تعلیم پر ہوگی۔

بقول حکمران حکومت اور سٹیبلشمنٹ ایک پیچ پر ہیں۔ بقول والدین کیا حکومت کی وزارتیں آپس میں ایک پیچ پر نہیں ہیں؟ کیونکہ این سی اوسی کے تمام تر خدشات کے باوجود وفاقی وزارتِ تعلیم نے اولیول اور اے لیول کے امتحانات لینے کا فیصلہ کیا۔ دنیا کے پہلے شاعر ہومر جو بصارت سے محروم تھے نے اپنی ایک نظم میں ٹروجن وار کے مشہور ہیرو ایکی لیس کے استاد کی ایک نصیحت تحریر کی ہے کہ یونانیوں کے چڑھاوے، تحائف اور نذر نیاز قبول کرکے اُن کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جانا لیکن جب تک یہ چیزیں نہ ملیں اپنے غصے کو ہرگز کم نہ ہونے دینا۔

وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے ہمارے نوجوانوں کو سچا اور کھرا پاکستانی بنانے کے لیے یکساں نصابِ تعلیم جیسا کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے۔ میڈیسن کی فیلڈ میں پروفیسرڈاکٹر عامر شہزاد انٹرنیشنل سطح کی شخصیت ہیں۔ اُن کی اور دیگر والدین کی تشویش ایسے باوقار اور پرخلوص وفاقی وزیرتعلیم تک پہنچنی ضروری ہے کہ اتنے رسکی ماحول میں کیمبرج کے امتحانات فزیکلی لینے کی آخر وہ کون سی منطق ہے جو وفاقی وزارتِ تعلیم کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی یا نذرنیاز کا کوئی معاملہ ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :