
اکتوبر 1958ء اور اکتوبر 2021ء میں کیا فرق ہے؟
جمعہ 5 نومبر 2021

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
صدر نے آئین کی کمزوریوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا تھا اور جس شخص کا ملکی سیاست سے ذرا بھی تعلق تھا اسے بے نقاب کر کے اس کی ساکھ مٹی میں ملا دی تھی۔
اِدھر سیاست دان، خاص طور پر وہ لوگ جن پر سیاسی زندگی کے دروازے بند کردےئے گئے تھے، عام انتخابات سے طرح طرح کی امیدیں وابستہ کرنے لگے تھے۔ انہیں یہ ترغیب ہوئی کہ وہ بظاہر سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے مگر درپردہ اپنے مخالفوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ملک گیر مہم شروع کریں۔ اس کام میں سب سے آگے آگے خان عبدالقیوم خان تھے جو ملک کے دورے کرکے اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کو خانہ جنگی کی تلقین کررہے تھے۔ ان کو دو بڑے فصیح البیان رفیق مل گئے تھے۔ ان میں سے ایک تو میرے بھائی سردار بہادرخان تھے اور دوسرے راجہ غضنفر علی خان۔خان عبدالقیوم خان نے مسلم لیگ نیشنل گارڈ تیار کرنا شروع کی اور کوئی 60ہزار جوان بھرتی کرلیے۔ 28ستمبر کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کی کہ اگر ضرورت پڑی تو غیرآئینی طریقوں سے حکومت کو برطرف کیا جائے گا۔ ملک کی صورتحال اس وقت اور بھی پیچیدہ ہوگئی جب خان قلات نے عام ابتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلات کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے سازشیں شروع کردیں۔ اس زمانے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ یہ خیال کیا جارہا تھا کہ خان قلات کو اس امر میں صدر پاکستان سکندر مرزا کی طرف سے شہ مل رہی ہے جو اپنا آخری حربہ استعمال کرنے کے لیے زمین ہموار کررہے تھے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ قیوم خان اور ان جیسے کچھ اور سیاست دانوں نے مسلح افواج کے بعض اراکین سے رابطہ قائم کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہے تھے تاکہ سینئر افسروں کو گمراہ کیا جائے اور اپنے اقتدار کی ہوس میں فوجی افسروں کے گروہوں کی حمایت حاصل کی جائے۔ ایک فوجی کی حیثیت سے مجھ پر یہ بات بخوبی عیاں ہوگئی تھی کہ سول حکام جو سیاست دانوں کے آگے پہلے ہی بے دست و پا ہوچکے تھے، صورتحال پر قابو نہ پاسکیں گے۔ فوج خواہ پسند کرے یا ناپسند، اسے دخل دینا ہی پڑے گا کیونکہ آخر ملک میں نظم و ضبط تو قائم رکھنا ہی ہوگا۔ گردوپیش جو حالات پیدا ہوگئے تھے، فوج ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ نہ یہ خیال کیا جاسکتا تھا کہ فوجی افسر اور جوان زندگی کے ہر شعبے میں جو سیاسی جوڑ توڑ، چالبازی، بے ایمانی اور بدنظمی دیکھتے تھے، اس سے کوئی اثر قبول نہ کریں گے۔ ان کے عزیزو اقارب بھی تھے، وہ اخبار بھی پڑھتے تھے اور بعض اپنے اپنے تعلقات کا سلسلہ بھی رکھتے تھے۔ چونکہ فوج محب وطن تھی اور ایک قومی فوج تھی، اس لیے لازمی بات تھی کہ وہ عوام کے خیالات کا ساتھ دے۔ بڑے بڑے معزز لوگ مجھ سے ملنے آتے اور کہتے تم چاہو تو ملک کی حالت سنبھال سکتے ہو مگر تم جوکھوں میں پڑنا نہیں چاہتے۔ میرے بعض دوستوں نے اور بھی منہ پھٹ ہوکر یہی بات مجھ سے کہی۔ میں نے کہا بھلا میں کیا کرسکتا ہوں۔ یہ جوکچھ ہورہا ہے، اس کی ذمہ داری مجھ پر تو نہیں آتی۔ تم تو میری انہی باتوں پر نکتہ چینی کرسکتے ہو جن کا میں ذمہ دار ہوں۔ جوں جوں حالات خراب ہوتے گئے، زیادہ سے زیادہ لوگ میرے پاس آئے اور اسی لہجے میں گفتگو کرنے لگے۔ مجھے ان کی آنکھوں میں بڑی مایوسی جھلکتی نظر آتی تھی۔ میں جہاں کہیں جاتا اور میں اکثر دورے پر رہا کرتا، کبھی ایک چھاؤنی کا معائنہ کرنے کے لیے کبھی دوسری کا اور جب کبھی لوگ جمع ہوتے مجھے ان میں وہی بے چینی دکھائی دیتی۔ پست ہمتی کا احساس عوام میں تیزی سے سرایت کرتا جاتا تھا اور انہوں نے کھلم کھلا کہنا شروع کردیا تھا کہ کاش کوئی اللہ کا بندہ آئے اور ملک کو بچائے۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ فوج کی طرف تھا کیونکہ فوج ہی اس خلا کو بھرسکتی تھی۔ فوج ہی وہ واحد منظم ادارہ تھی جو مشکل کے وقت ان کی سپر بن سکتی تھی، ان کو سہارا دے سکتی تھی تاکہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں اور ان مصیبتوں سے نجات حاصل کرسکیں جن میں وہ گھرے ہوئے تھے۔ حالات میں کوئی بہتری کی صورت نظر نہ آتی تھی مگر میں تمنا کیا کرتا کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ پیدا ہوہی جائے۔ ایسی صورت میں میں پہلا آدمی ہوتا جو اس کا خیرمقدم کرتا اور پوری طرح اس کی مدد کرتا۔ میں آس لگائے رہا اور دعائیں مانگا کیا“۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی کتاب میں 63برس پہلے کے مندرجہ بالا سیاسی حالات تحریر کیے تھے لیکن یوں لگتا ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ 2021ء کے بارے میں لکھا تھا۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.