کووڈ19 اور ہمارا تعلیمی نظام

جمعرات 1 جولائی 2021

Tahreem Ahsan

تحریم احسن

پاکستانی آئین تمام شہریوں کے لئے ایک جیسی تعلیمی سہولیات کی ضمانت دیتا ہے لیکن اگر ہم اپنے ملک کے سرکاری اسکولوں کی حالت دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوجائیگا کہ حکومت کا سلوک تعلیمی شعبے کے ساتھ باقی شعبوں کے مقابلے میں سوتیلی ماں سے کم نہیں ہے۔
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ کورونا کے سبب تعلیمی اداروں کا غیر معینہ مدت کے لئے بند ہوجانا حکومت کی انتظامی مجبوری تھی، لیکن لاک ڈاؤن کے باعث ہماری نوجوان نسل اور لاکھوں بچوں کا جو تعلیمی  نقصان ہوا  ہے اسکی ضمانت یہ حکومتی اراکین دے سکتے ہیں ؟؟ تعلیم کے میدان میں تو ویسے بھی پاکستان دنیا بھر کے ممالک میں سب سے پیچھے ہے اور رہی سہی کسر اس لاک ڈاؤن نے پوری کردی تھی۔


ہم اپنے اسکول کے ہر دور میں گریڈ، پوزیشن کے پیچھے دوڑتے بھاگتے بڑے ہوئے ہیں، ہمارے والدین سے لیکر اساتذہ تک ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں تاکہ ہمارے گریڈز میں بہتری آتی رہے۔

(جاری ہے)

اب تو وقت کے ساتھ بیشتر اسکولوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بورڈ کے نتائج میں پوزیشن کی دوڑ میں مست اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں اس سب میں نقصان ان طلبہ کا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے اس دوڑ میں پیچھے رہ کر احساس کمتری مبتلا ہوجاتے ہیں۔


بہرحال لاک ڈاؤن کے لگنے سے اسکولوں نے آن لائن تعلیم دینے کا نیا طریقہ متعارف کروایا جو اس وقت کی ضرورت بھی تھا، لیکن اس طریقہ تعلیم سے بھی بیشتر اساتذہ، والدین اور بالخصوص بچوں کو کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا ایک تہائی کے قریب طبقہ انٹرنیٹ کی سہولت سے آراستہ ہی نہیں تو کیسے ان بچوں کو آن لائن تعلیم دی جاسکتی تھی؟؟ ہمارے اساتذہ کے لئے بھی یہ سب کسی چیلنج سے کم نہ تھا کیونکہ کسی کسی اسکول میں ان سہولیات کا بھی فقدان رہا جنکی مدد سے بچوں کو آن لائن بہتر تعلیم دی جاسکتی۔

جن بچوں کو ایک کلاس روم کے اندر قابو کرنا انھیں پڑھنے پر راضی کرنا اک چیلنج ہوتا ہے اساتذہ نے کیسے ان بچوں کو پڑھنے پر راضی کیا ہوگا۔
اکثر والدین کو بچوں سے شکایت رہی کہ وہ بچوں کو کلاس لینے کے لئے موبائل تھماتے اور وہ بچے کلاس ادھوری چھوڑ کر والدین سے نظر بچاکر موبائل پر کبھی گیمز تو کبھی موویز میں مصروف رہے۔ جس گھر میں دو اسمارٹ فون اور اک لیپ ٹاپ ہیں اور بچوں کی تعداد چار انکے والدین کے لئے ایک وقت میں چار آن لائن کلاس لینا بھی کسی مشن سے کم نہیں رہا۔

پرائمری و سیکنڈری بچوں کے والدین تو کسی نہ کسی طور بچوں کو آن لائن کلاس کے لئے راضی کرلیتے ہیں لیکن پر پرائمری کے بچوں کو تو آن لائن کلاس کا شاید مطلب بھی معلوم نہیں اس عمر کے بچوں کو تو اپنے ٹیچرز کی زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس آڑے وقت میں بھی اصل امتحان ان ماؤں کا تھا جو گھریلو کام کاج بھی کرتی رہیں اور ساتھ ہی ان چھوٹے بچوں کے ساتھ انکی کلاس لیکر پھر انھیں انکے ٹیچرز کے طریقے سے پڑھاتی رہیں۔

آن لائن کلاسز کے دوران بچے، والدین اور اساتذہ انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی مشکلات کا شکار رہے، اکثر و بیشتر بجلی کی بندش ان کلاسز کے منقطع ہونے کا باعث بنیں تو کہیں کلاس کے دوران بچے ٹیچرز کی آواز اور تصویر کو لیکر پریشان نظر آئے۔
شہری علاقوں میں تو پرائیویٹ اسکولز کی بہتات ہے اور ان اسکولز نے لاک ڈاؤن کے دوران والدین سے فیسز بھی پوری پوری وصول کی جسکی شاید بڑی وجہ یہ تھی کہ ان اسکولز سے جڑے لوگوں کی تنخواہیں ان ہی فیسز سے ادا کی جاتی رہیں۔

پرائیویٹ اسکولز تو ہفتے کے اختتام پر والدین کو ڈھیروں ہوم ورک، پروجیکٹ بھی تھماتے رہے جو کہ زیادہ تر والدین کو ہی مکمل کرتے نظر آئے کیونکہ بچوں کا کہنا تھا کہ جب انھیں ایک چیز سمجھ ہی نہیں آرہی تو وہ اسکا پروجیکٹ کس طرح مکمل کرسکتے ہیں۔ پرائیوٹ اسکولز کے مقابلے میں دیکھا جائے تو سرکاری اسکول کے بچوں کا مستقبل تاریکی کی طرف بڑھتا چلاگیا کیونکہ ان اسکولز میں تیکنیکی سہولیات میسر نہیں اور نہ یہاں کے پڑھنے والے ہر بچے کے گھر میں اسمارٹ فونز ہونگے۔


جہاں اساتذہ نے باقاعدگی سے کلاسز لیں اور وہ بچوں کو پوری توجہ دینا چاہتے تھے وہ والدین کی سستی، لاپرواہی کی وجہ سے نالاں نظر آئے کہ والدین خود بچوں کو آن لائن کلاس نہیں دلواتے تھے۔ کہیں والدین کو اساتذہ سے شکایت تھی کہ وہ بچوں پر اس طرح کی توجہ نہیں رکھتے جو ایک کلاس روم کے اندر بچے کو میسر ہوتی ہے۔ کہیں بچوں کو شکایت تھی کہ انھیں سبق صحیح طرح سمجھ نہیں آتا اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر بچوں کو عادت ہوتی ہے کہ ٹیچر انکے سر پر کھڑے ہوکر انھیں اک ہی چیز کو بار بار سمجھائے۔


اس عالمی وباء نے پاکستان کے تعلیمی نظام کی خامیاں اور خوبیاں سب پر ظاہر کردیں، اور اس وباء کے نتیجے میں طلبہ کا تعلیمی کیرئیر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سونے پر سہاگہ 2020 کے طالب علموں کو وفاق کے فیصلے کے مطابق بنا امتحان دیے پاس کردیا گیا، یہ فیصلہ اُس وقت کی نزاکت کو دیکھ کر کیا گیا تھا لیکن حکومت کا یہ فیصلہ کس حد تک درست تھا یہ آنے والے وقتوں میں ہم سب کے سامنے آہی جائیگا۔

انکا یہ فیصلہ ہمارے طالبعلموں کے دلوں میں اک نئی خوش فہمی کا باعث بھی بنا کہ اگر یہ وبا ختم نہ ہوسکی تو انھیں 2021 کے امتحانات میں بھی ایسے ہی پاس کیا جائیگا۔ لیکن اُن ہی طالب علموں پر بم تب گرا جب اک اور اعلان سامنے آیا کہ کچھ بھی ہوجائے اس سال کسی بھی طلبہ کو بنا امتحان پاس نہیں کرینگے۔ حکومت کے اس فیصلے کے بعد والدین اور طلبہ کی اکثریت احتجاج کرتی نظر آئی کہ انھیں یہ فیصلہ منظور نہیں اگر آن لائن کلاسز ہوسکتی ہیں تو آن لائن امتحان کیوں نہیں؟ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ والدین اس وقت کیوں باہر نہیں نکلے جب حکومت نے بنا امتحان تمام طالبعلموں کو پاس کرنے کا فیصلہ سنایا تھا اس وقت کوئی  احتجاج کیوں نہ ہوا کہ عوام بنا امتحان طلبہ کے پاس ہونے کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے اور ہر حال میں امتحانات لئے جائیں۔

۔ شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے جو فیصلہ اپنے فائدے کا لگے وہ اسے خوشی خوشی قبول کرتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل اک نیا اعلان سامنے آیا ہے کہ دسویں اور بارہویں جماعت کے جو طلبہ امتحان میں فیل ہونگے انھیں بنا امتحان پاس کردیا جائیگا ۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب وہ بچے محنت سے پڑھ سکیں گے جنھیں حکومت کی طرف سے گولڈن چانس مل گیا کہ اگر وہ فیل بھی ہوگئے تو ویسے ہی پاس کردیے جائینگے۔


 اساتذہ اور والدین کی اکثریت کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کی بندش اس مسئلے کا حل کسی طور نہیں تھی، کیونکہ جب مالز، ریسٹورنٹ، بازاروں کو ایس او پیز پر عمل درآمد کرتے ہوئے کھولا جاسکتا تھا تو تعلیمی ادارے تو زیادہ بہتر ان ایس او پیز پر عمل کرسکتے ہیں۔ جن اسکولز میں حکومت کو لگتا کہ ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا وہ ان  اداروں اور انکے افراد پر جرمانے عائد کرتی۔


بہرحال دیر سویر ہماری حکومت کو خیال آگیا کہ طلبہ کا جتنا نقصان ہوچکا کافی ہے اب 50 فیصد حاضری کے ساتھ تعلیمی اداروں کو معمول پرلایا جائے تاکہ آگے آنے والے امتحانات کی تیاری میں آسانی ہوسکے۔
اب جبکہ ہمارے اسکولز معمول پر آچکے ہیں تو سب سے پہلے اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ اس لاک ڈاؤن کے دوران اساتذہ اور طلبہ کے درمیان جو اک خلا آگیا تھا اسے پُر کیا جائے، ساتھ ہی طالب علموں کی ذہنی صحت پر توجہ بھی دی جائے کیونکہ ہمارے یہ بچے اک طویل مدت کے بعد اسکولوں کو لوٹے ہیں اور اس مدت میں کسی نہ کسی بچے کے ساتھ ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور رونما ہوا ہوگا جس کی گہری چھاپ انکے ذہنوں پر رہ گئی ہے۔

اس وبا نے سب کی زندگیاں گھروں تک محدود کردی تھیں بیشتر طلبہ نے گھر کے بزرگوں کو اس بیماری سے لڑتے اور شاید جان سے جاتے بھی دیکھا ہوگا، کہیں کسی گھر کے فرد کو ملازمت سے بھی فارغ کیا گیا ہوگا غرض یہ کہ سب ہی کسی نہ کسی ذہنی اذیت سے گزرے ہونگے۔
اسی لئے تمام والدین اور اساتذہ کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ پہلے تو اُن طالب علموں میں یہ ہمت اور حوصلہ پیدا کریں کہ جو ہوا سو ہوا اب وقت ہے کہ آنے والے وقت کے لئے یہ طلبہ اپنے آپ میں اعتماد پیدا کریں کہ اگر انکے سامنے کوئی چیلنج آئے تو انھیں اس سے گھبرانا نہیں بلکہ پوری ہمت کے ساتھ اسکے آگے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہے اور اسکا مقابلہ کرنا ہے۔

ساتھ ہی امتحانات کے حوالے سے اِن پر کوئی اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے کہ انھیں ہر حال میں پوزیشن لینا ہی پڑے گی بلکہ انھیں یہ بھروسہ دلائیں کہ امتحان کے لئے وہ جتنا محنت کرسکتے ہیں کریں نتیجہ جیسا بھی سب کے ساتھ مساوی سلوک ہی رکھا جائیگا۔ اساتذہ بھی پہلے کی طرح ان بچوں پر ویسی ہی شفقت و توجہ دکھائیں جو اس وباء سے پہلے تھی انھیں احساس دلائیں کہ وہ بچے اگر کسی بھی مضمون یا سبق کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہیں تو اساتذہ انکی بھرپور رہنمائی کریں گے۔  اس پورے ضمن میں والدین اور اساتذہ کا مثبت کردار ہی ان تمام بچوں کے اس نقصان کا ازالہ کریگا جو کورونا کی وباء اور لاک ڈاؤن نے کردیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :