میرے جانے کے بعد

منگل 6 جولائی 2021

Tahreem Ahsan

تحریم احسن

موسم سرما کے ابتدائی دن چل رہے تھے کہ اچانک رات کے آخری پہر میں میری طبیعت کچھ ایسی بگڑی کہ میری زبان ساکت ہوگئی، آنکھیں پتھراگئیں اور جسم بے جان، میں اپنے بستر پر اک زندہ لاش کی مانند لیٹی تھی۔۔
میرے بچوں کو فون کرکے جلدی آنے کی تاکید کی گئی کیونکہ دیکھنے والوں کو لگا کہ شاید میرا آخری وقت آگیا ہے، میرے بچے کچھ ہی وقت میں میرے آس پاس آگئے کچھ کمرے سے باہر تھے تو کوئی میرے سرہانے۔

۔ یہ وہی بچے ہیں جن سے میں وقت مانگتی تھی اور اُس وقت انکی نجی مصروفیات آڑے آتی تھی اب وہ میری طبیعت کا سن کر دوڑے چلے آئے تھے اور میری زبان سے اپنے لئے اک لفظ سننے کے منتظر تھے پر آج میں انہیں اپنی آواز سنانا ہی نہیں چاہتی وہی آواز جسے یہ بچپن میں سنتے تھے تو جی امی کہہ کر فوراً حاضر ہوجاتے تھے شاید انہیں تب میری ضرورت تھی اور بڑے ہونے پر انکی ضرورت بدل گئی جبھی میرے دس بار پکارنے پر بھی انہیں میری آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔

(جاری ہے)


ان لوگوں نے مجھے جس طرح ستایا ہے اسکے لئے میں ان سے کبھی ناراض تو نہیں ہوئی لیکن آج میں ان سے کچھ کہنا ہی نہیں چاہتی۔
میری یہ اولادیں جنکے پاس ہزاروں کام ہوا کرتے تھے  اب روز میرے پاس بیٹھ رہے ہیں، میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکرمجھ سے باتیں کررہے ہیں اور مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے کیوںکہ مجھے اسی کی تو خواہش تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج انکی باتوں کے جواب میں میں ان سے کچھ کہہ نہیں پارہی، بس ٹکر ٹکر انہیں دیکھ رہی ہوں۔

  اگر میں چاہتی تو اپنے رب سے مہلت لیکر اٹھ جاتی اپنی اولادوں کے بہتے آنسو صاف کرتی انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی لیکن پھر میں نے سوچا کہ اگر میں ٹھیک ہوگئی تو یہ پھر سے اپنے زندگیوں میں مصروف ہوجائینگے اور میں پھر سے انکے وقت اور دیدار کے لئے ترسوںگی۔
اب جبکہ میرے اس دنیا سے جانے کا وقت قریب آرہا ہے میرے دل میں خواہش ہے کہ میرے یہ بچے میرے سرہانے ایسے کھڑے ہوں جیسے بچپن میں میں نے انہیں محبت سے باندھا تھا، کسی کے دل میں کسی کے لئے کوئی نفرت کوئی بغض نہیں ہو، میرے جانے کے بعد بھی یہ ایسے رہیں کہ لوگ انہیں دیکھیں تو میری تربیت پر رشک کریں اور میں دور کہیں سے انہیں دیکھ کر سکون میں رہوں۔


لیکن یہ میرے بچوں کو کیا ہوگیا ہے یہ کیوں اک دوسرے سے اتنا بدظن ہوگئے ہیں کہ انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جانے والی ماں کی اک حقیر سی خواہش کو یہ پورا نہیں کرسکتے۔ انکے نزدیک انکی انائیں اتنی زیادہ اہم ہوگئیں ہیں کہ نو مہینے انہیں پیٹ میں رکھ کر تکلیف سہنے والی ماں انکے لئے غیر اہم ہوگئی ہے۔
میری یہ اولادیں ایسی کبھی نہیں تھیں پھر ایسا کیوں ہوگیا کہ انہیں میری ضرورت ہی نہیں رہی۔

میری زندگی میں جو کچھ بھی حالات رہے پر میں نے اپنے بچوں کو کبھی بھی زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، پھر نجانے کیوں میری اس مہلک بیماری کے آخری ایام میں ان سب نے مجھے تنہا کردیا۔
بیٹی سے کیا شکوہ کرتی وہ جب تک میرے ساتھ رہی دل و جان سے میری رہی اور جب اسکی شادی کردی تو اسکو یہی فکر رہتی کہ اسکا اپنا بھی اک گھر ہے وہ روز روز یوں میرے لئے نہیں آسکتی، میری وجہ سے اسکے گھر کا ماحول تلخ نہ ہو اسے اسکی فکر رہتی تھی۔

بہو سے شکوہ بھی نہیں کیونکہ میں انکی ذمہ داری کبھی تھی ہی نہیں۔ ہاں مجھے بیٹوں سے شکوہ ہے کہ وہ بھی ماں کو نہ سمجھے۔
میرے بچے سمجھتے رہے کہ مجھے میری بیماری کا علم ہی نہیں شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ میں انکی ماں ہوں انکے لہجے سمجھ کر بتاسکتی ہوں کہ آخر مجھے ہوا کیا تھا۔
میرے جن بچوں کے پاس مسائل کا انبار تھا کیا انکے سارے مسائل ختم ہوگئے جو وہ یوں روزانہ پابندی سے میرے پاس آرہے، مجھ سے معافی مانگ رہے شاید وہ بھی سمجھ گئے تھے کہ میرا آخری وقت قریب ہے اور وہ اس وقت میرے ساتھ رہ کر قیامت کے دن ہونے والی شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں۔


کیا واقعی ماؤں کی تربیت میں کوئی کمی رہ جاتی ہے کہ کوئی تیسرا آئے اور انکے رشتوں میں دراڑ کا باعث بنے، اور وہ اک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھنا چاہیں۔ بحیثیت ایک ماں کے میں کیسے اپنے بچوں کو یوں بکھرتا دیکھتی، اسی لئے میں نے اپنے رب سے کہنا شروع کردیا کہ وہ مجھے اپنے پاس بلالے کیوںکہ یہاں  اب کوئی میرا ضرورت مند نہیں۔
میری سب سے بڑی اولاد کا ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ میں اسے باقی اولادوں کے مقابلے کم پیار اور توجہ دیتی ہوں، لیکن میں اسکو کیسے یقین دلاتی کہ اک ماں کی اپنی پہلی اولاد سے محبت بالکل ہی مختلف ہوتی ہے، جو پیار، وقت و توجہ پہلی اولاد کو دی جاتی ہے وہ آگے آنے والی اولادوں کو اس طرح نہیں ملتی۔

  بلکہ باقی اولادوں میں تو یہ پیار توجہ بٹ جاتی ہے اور ان میں محبت بھی برابری کی بنیاد میں تقسیم ہوتی ہے۔
میں اب تھک چکی تھی اپنی زندگی سے، تنہائی سے، حالات سے اور مجھ سے جڑے لوگوں کی لاپرواہی سے۔ میرے لہجے کی تلخی تو سب نے دیکھی تھی پر کبھی کسی نے اس تلخی اور کڑوے الفاظ کے پیچھے کی وجہ کسی نے نہیں جانی۔۔
ہم ماؤں کا بس چلے تو ان اولادوں کو ہم چھوٹا ہی رکھیں کبھی بڑا نہیں ہونے دیں کیونکہ ہماری یہ اولادیں جب تک ہماری محتاج ہوتی ہیں انھیں ہماری ضرورت ہوتی ہے لیکن جیسے ہی یہ بڑے ہوجائیں انکا گھر بس جائے تو انکی ضرورت ہی بدل جاتی ہے سب اپنی اپنی میں لگے ہوتے ہیں اور جنم دینے والے ماں باپ کہیں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔


اب جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے میرے اندر رگوں میں کہیں کچھ کھچتا جارہا جیسے کوئی میرے اندر سے خون نچوڑ رہا ہو، میں گذشتہ چند دنوں سے اک عجیب اذیت ناک حالت میں تھی کہ مجھے کھلایا جاتا تو نگل لیتی، پلایا جاتا تو پی لیتی اور میرے بچے مجھے اس اذیت سے نکالنے کے لئے کوئی نہ کوئی حربہ آزما رہے تھے لیکن وہ صرف یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ دنیا سے جاتی انکی ماں کو اس اذیت سے آزاد اک ہی چیز کرسکتی ہے اور وہ ہے انکا میل جول۔

جس کے بعد میں سکون سے جاسکوں گی کہ میرے بچے اب ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ساتھ رہیں گے۔ پر یہ اولادیں کیوں میرے پاس اک ساتھ نہیں آرہی کیوں یہ کسی اسپتال کے اسٹاف کی طرح الگ الگ مجھے وقت دے رہے ہیں میری دیکھ بھال کررہے اس وقت بھی انکی انائیں زیادہ اہم ہیں؟
آج پورے ایک ہفتے بعد مجھے میرے شوہر کے استعمال شدہ بستر پر منتقل کیا گیا ہے کہ شاید میرے اذیت کچھ ہم ہوجائے، میں خود بھی اب تھک گئی ہوں یوں سب کی محتاج ایسے بستر پر لیٹے لیٹے،  دور کہیں سے فجر کی آذان سنائی دے رہی اور موت کا فرشتہ میرے سامنے موجود مجھے کہہ رہا کہ چلو بی بی تمھارا بلاوا آگیا پڑھ لو کلمہ۔

میں تو اپنی اولادوں کو پکارنا چاہتی تھی لیکن میری زبان نے صرف اتنا ساتھ دیا کہ میں درود شریف پڑھوں کلمہ پڑھوں۔ جاتے جاتے اک خواہش کہ کہیں سے میرے بچے آجائیں اور مجھے پکار کر کہیں کہ امی دیکھیں ہم ساتھ ہیں صرف آپ کے لئے اور مجھے دلی سکون مل جائے اور میں اطمینان سے جاسکوں پر لگتا ہے سب سو گئے ہیں اس اطمینان کے ساتھ کہ میں انہیں ملے بغیر کہیں نہیں جاؤنگی۔

میری یہ آنکھیں جنہیں آخری بار دیکھنا چاہتی تھی وہ یہاں تھے ہی نہیں، چلو پھر اے فرشتوں مجھے ساتھ لے چلو ۔۔۔۔
      ارے یہ سب میرے ارد گرد اب کیوں ایسے سکتے کی کیفیت میں بیٹھے ہیں انہیں کیا لگا کہ انکی ماں ان سے کبھی ناراض نہیں ہوئی تو وہ کیسے بنا کچھ کہے جائے گی۔ لیکن یہ کیا اس دکھ کے عالم میں بھی انکی انائیں انکے آپسی رشتے پر غالب ہے یہ کیوں ایک دوسرے کو تسلی/ حوصلہ نہیں دے رہے کہ انہیں سب سے زیادہ پیار کرنے والی، اس دنیا میں لانے والی، زمانے کے سرد و گرم سے بچانے والی ماں انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئی ہے اور اب انکے سو بار بلانے پر بھی نہیں آئیگی۔

۔
  مجھے آخری منزل تک پہچانے سے پہلے غسل دے کر میرا پاک لباس پہنایا گیا خوشبو میں بسایا گیا اور آخری آرامگاہ تک لے جایا جارہا تھا، اب یہ چاہے کتنا روئیں آنسو بہائیں میں انہیں نہیں مل سکتی۔ میرے بچوں آپس کی رنجشیں بھول کر اک دوسرے کے گلے لگو اور اپنا غم بانٹ لو یہ ایسا وقت ہے کہ کوئی تیسرا تمھارے بیچ نہیں بولےگا۔۔۔ پر آہ میری یہ ساری امیدیں میری یہ خواہشیں میرے ساتھ ہی میری لحد میں اتاردی گئیں اور مجھے منوں من مٹی تلے دفنا دیا گیا۔


اب مجھے دنیا سے گئے آٹھ ماہ ہوگئے ہیں پر مجھے قبر میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں بہت سالوں سے یہاں ہوں۔ فجر کے وقت دو فرشتے میرے پاس آئے اور کہا چلو تمہیں تمھارے گھر اور گھر والوں کا حال دکھا کر لاتے ہیں پر تم انہیں مخاطب نہیں کرسکوگی اور نہ وہ تمھیں دیکھ پائیں گے۔
مجھے میرے گھر کے باہر لاکھڑا کیا کہ چلو اندر جاؤ اور دیکھ لو یہ کس حال میں ہیں، گھر کے اندر داخل ہوئی تو ایسا لگا یہ گھر نہیں کوئی ویران قبرستان ہے، ہر چیز پر مٹی اٹی ہوئی تھی سب چیزیں بکھری سی۔

بڑے بیٹے کے کمرے میں گئی تو اسکا جو حال تھا وہ دیکھ کر تو میرا کلیجہ کٹ گیا، میری پہلی محبت نے اپنا یہ کیا حال کرلیا تھا، مجھے اسکی فکر نے سکون سے جینے نہ دیا اور نہ ہی مرنے،  میں اسکو گلے لگانے کی خواہش میں آگے بڑھی پھر خیال آیا کہ مجھے تو انہیں چھونے انہیں مخاطب کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ جب اپنے کمرے میں گئی تو وہاں میرے شوہر موجود تھے انتہائی کمزور لگ رہے تھے یوں لگا کہ جیسے میرے بعد انہوں نے بھی اپنی پرواہ کرنا چھوڑ دی، میرے جو بچے اس گھر میں رہتے نہیں وہ شاید اب یہاں آتے بھی نہیں۔

چھوٹے بیٹے کے پاس گئی تو وہ بھی سونے کی تیاری میں مصروف تھا، اسکے چہرے کی تھکن بتارہی تھی کہ اسے بھی میرے جانے کی کمی کھلتی ہے۔ مجھے خیال آیا کہ کیا میری بیٹی نے بھی میرے بعد اس گھر کے افراد سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے، بیٹیاں تو ماں کا پر تو ہوتی ہیں کیا وہ ایک ماں کی طرح ان سب کا خیال نہیں کرتی یا اب بھی اسکے ساتھ وہی مسئلے کہ اسے اپنا گھر پہلے دیکھنا ہے۔

میری سب سے چھوٹی اولاد کو تو شاید بیوی کے روپ میں ہر رشتے سے نواز دیا گیا ہے کہ اسکے نزدیک اب تک کسی اور رشتے کی کوئی اہمیت رہی ہی نہیں۔ میرے بچے میرا تذکرہ کرنا شاید بھول جائیں لیکن اپنے پوتوں اور نواسہ نواسی کے ذہنوں میں میں ہمیشہ رہوںگی۔
  اب میں مزید یہاں رکنا نہیں چاہتی میں نے فرشتوں سے کہا مجھے واپس لے چلو لیکن ہوسکے تو میری اولادوں کو یہ بات بتادینا کہ میں انہیں ہمیشہ سے کامیاب اور نیک صحبتوں میں دیکھنا چاہتی تھی۔

انکا پڑھا ہوا، انکا کھلایا، پہنایا سب مجھ تک آرہا لیکن کیوں میرے پاس وہ نہیں آتا جو میں عرصہ سے دیکھنا چاہتی تھی، اپنے سب بچوں کا ساتھ گزرا کوئی پل کوئی لمحہ جو مجھے قبر کے اندر اک سکون پہنچاسکے۔ کبھی تو میرے سب بچے میرے لئے اک ساتھ آکر میری قبر پر بیٹھیں۔
اے کاش کہ ایسا ہو اے کاش کہ ایسا ہو
میری تمام پڑھنے والوں سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ اگر آپکے والدین حیات ہیں اور انکی خواہش آپ سب کو ساتھ دیکھنے کی ہے تو انکے لئے اپنے آپسی تعلقات کو بہتر کریں انہیں وقت دیں کیونکہ عمر کے جس حصے میں وہ ہیں ایسے میں انسان کبھی کبھار اپنی ساری اولادوں کی توجہ چاہتا ہے۔

۔ انکی قدر اگر کرنا ہی ہے تو انکی زندگی میں کریں کیونکہ جو مرنے کے بعد ہو وہ قدر نہیں پچھتاوا کہلاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :