پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات کا ذمہ دار کون ؟؟؟

ہفتہ 10 جولائی 2021

Tahreem Ahsan

تحریم احسن

گزشتہ چند سالوں کے دوران جنسی زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، کچھ عرصہ قبل تک یہ واقعات صرف عورتوں کے ساتھ پیش آتے تھے لیکن اب یہ واقعات عورتوں سمیت کمسن بچے، بچیوں اور خواجہ سراؤں تک کے ساتھ پیش آرہے ہیں،ساتھ ہی زیادتی کے بعد متاثرین کو قتل کرنے کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں۔
ان حالات کا ذمہ دار کون ہے ؟ بے بس عوام، عورتوں کا لباس، حد درجہ بڑھتی بے حیائی و فحاشی، مردوں کی نظریں یا پھر حکومتی ادارے؟
یوں تو جنسی زیادتی کے کیسز عرصہ دراز سے واقع ہوتے رہے لیکن 2002  عالمی سطح پر لڑا جانے والا پہلا کیس 30 سالہ مختاراں مائی نامی ایک عورت تھا جسے پنچایت کے فیصلے کے مطابق چار مردوں نے بیک وقت اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اسکا قصور صرف یہی تھا کہ اسکا بھائی کسی دوسرے اعلیٰ خاندان کی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کئے ہوئے تھا جسکی سزا ملی مختاراں مائی کو۔

(جاری ہے)


بہرحال اسکے بعد 2005 سے 2020 تک ریپ کے بعد قتل کے مختلف کیسز سامنے آتے رہے۔ ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں روزانہ 8 بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا رہا۔ ساحل نامی این جی کے سینئر آفیسر سہیل احمد کے مطابق 2020 کے 12 ماہ کے دوران صرف بچوں سے جڑے
 مختلف جرائم کی تعداد 2960 تھی اور 2019 اور 2020 کا اگر جائزہ لیں تو ان کیسز میں 4 فی صد تک اضافہ ہوا۔

ان تمام کیسز میں لڑکے لڑکیوں دونوں کے ساتھ ہی زیادتی کے واقعات پیش آئے اور 89 کیسز ایسے بھی تھے جس میں بچوں کے ساتھ ریپ کرتے وقت انکی ویڈیوز بھی بنا کر عالمی مارکیٹ میں فروخت کی گئی۔ اس این جی او کے پاس ریپ کے صرف انہی کیسز کی معلومات ہیں جو رجسٹرڈ ہیں،نہ جانے کتنے ہی کیسز ایسے بھی ہونگے جنھیں لوگوں نے میڈیا پر آنے کی وجہ سے رجسٹرڈ ہی نہیں کرایا۔

کئی کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں متاثرین کے گھر والوں کو ایک خطیر رقم دے کر انکا منہ بند کروایا جاتا اور کہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔
2019 میں قصور کی رہائشی سات سالہ زینب کا کیس سامنے آیا اس معصوم بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ اس کیس کے بعد ملک بھر میں ملزمان کی گرفتاری اور انکے ساتھ سخت کاروائی کرنے کے حق میں مظاہرے شروع ہوئے۔

ان مظاہروں کے نتیجے میں ملزم عمران علی کو گرفتار کرلیا گیا جس نے زینب سمیت مزید 8 بچیوں کے ساتھ ریپ اور انھیں قتل کردینے کا اعتراف بھی۔ اس کیس کے اختتام پر اسمبلی میں زینب الرٹ کے نام سے اک بل پاس ہوا جس کا مقصد ملک میں بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات پر قابو پانا تھا۔ لیکن اسکے باوجود بھی ایک کے بعد ایک زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہے۔

نومبر 2019 میں راولپنڈی سے سہیل ایاز نامی شخص کی گرفتاری عمل میں آئی جس نے 30 بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے، انکی برہنہ ویڈیوز بنانے اور پھر فروخت کرنے کا اعتراف بھی کیا۔ دسمبر 2019 میں ہی مانسہرہ میں دس سال کے بچے کے ساتھ مدرسے کی حدود میں بدفعلی ہوئی اور اسکے شور مچانے پر اس بچے پر تشدد بھی کیا بعد ازاں مدرسے کو بند کردیا گیا، اور مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔


لاہور موٹروے کا واقعہ بھی کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ 2020 میں لاہور موٹروے کے قریب رات کے وقت ایک خاتون کے ساتھ انکے ہی بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی گئی۔ کچھ عرصہ قبل اک قبر کو کھود کر لاش کے ساتھ بدفعلی کی گئی۔ اور پھر حال ہی میں مولوی عبد العزیز کے کسی طالبعلم کے ساتھ بد فعلی کے ویڈیو سامنے آئی جسکے بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا۔


آخر ان واقعات کے رونما ہونے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ؟ آخر جنسی زیادتی کرنے والے افراد کے اندر اتنی ہمت آتی کہاں سے ہے؟ وہ کیسے اتنے نڈر ہوکر بلاخوف و خطر کسی بھی عمر کے بچے،بچی، عورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ کیوں ہمارا معاشرہ اتنا کمزور ہے کہ پنچایتوں میں کئے جانے والے خون کے بدلے خون، عزت کے بدلے عزت جیسے فیصلوں کی روک تھام کے لئے کوئی اقدام نہیں ہوتا۔


جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافے کی اک وجہ پاکستان میں فحاش ویڈیوز، ویب سائٹس اور گروپس کا بے جا استعمال بھی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان ان ٹاپ ٹین ممالک کی لسٹ میں شامل ہے جہاں فحاش ویڈیوز کا دیکھا جانا عام سی بات ہے۔۔
یہ کیسز اسلئے بھی بڑھنے لگے ہیں کیونکہ ان ملزموں کے دل میں قانون کے حوالے سے کوئی بھی ڈر و خوف ہے ہی نہیں اور کچھ ہمارے ادارے بھی اعلیٰ حکام کے آگے بے بس ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی سچ کا ساتھ نہیں دے پاتے۔


کئی کیسز ایسے بھی ہیں جو گھروں کی حدود میں پیش آتے ہیں، کہا جاتا ہے عورت کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اسکا گھر ہے لیکن آج کی عورت تو اپنی اس پناہ گاہ میں بھی محفوظ نہیں۔ اس وقت جنسی استحصال کے 76 فی صد کیسز میں ملزم گھر کے ہی افراد جیسے باپ، ماموں، تایا، چچا، کزن، پڑوسی یا دوسرے رشتہ دار ہیں جن سے کسی قسم کی باز پرس بھی نہیں کی جاتی، الٹا ان کے ظلم کا شکار ہونے والی عورت، بچہ ، بچی کو ہی غلط ٹہرا دیا جاتا ہے کیونکہ ہم تو اسلامی ریاست کے علمبردار ہیں اور یہاں خاندان کے افراد پر ایسے الزامات لگانا معیوب سمجھتے ہیں اور یوں ان افراد کی پکڑ نہ ہونے کی وجہ سے خاندان کے اندر جنسی استحصالی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔


کچھ کیسز میں جنسی زیادتی کسی انتقام کی وجہ سے بھی کی جاتی ہے۔ بالفرض کسی بچے کے ساتھ بچپن میں غلط فعل کیا گیا ہو اور اسے لوگوں نے انصاف نہ دیا ہو تو وہ اپنے ذہن میں کہیں نہ کہیں انتقام کی آگ کو دبا کر بڑا ہوتا ہے اور پھر جیسے ہی اسے موقع ملتا ہے وہ اُس واقعے کا بدلہ معاشرے کے کسی بھی شخص سے لے لیتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں اس معاشرے کے باقی افراد کی یعنی ہم خود۔

۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جنسی زیادتی کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی تو بہت بعد میں دکھاتے ہیں پہلے اس پر فضول اور گھٹیا قسم کے سوالات کا انبار لگادیتے ہیں کہ تم رات کے اُس پہر اکیلے کیوں نکلی تھی، تم نے اپنی بیٹی کو اکیلے بازار یا گلی میں کیوں نکلنے دیا، تم نے کس طرح کے کپڑے پہنے تھے، تمہیں بچی کو اکیلے گھر میں کزنز کے ساتھ چھوڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، یہ اور اسطرح کے باقی تمام سوالات جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچے، بچیوں، عورتوں کے زخموں پر مرہم کے بجائے نمک لگانے کے مترادف ہوتے ہیں۔


اس معاشرے کے نہ تو سب مرد کمزور نفس کے مالک ہیں اور نہ سب عورتیں فحاش۔ پھر کیوں جب بھی کوئی جنسی  زیادتی کا واقعہ پیش آتا ہے تو مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی پر اتر آتے ہیں؟ کیوں عورتیں مردوں کو تنگ نظر ہونے اور مرد عورتوں پر تنگ لباس اور بے حجاب گھومنے کے الزامات لگاتے ہیں۔
حال ہی میں وزیراعظم عمران خان صاحب نے بھی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بڑی وجہ عورت کے لباس کو بتادیا کہ مرد کوئی روبوٹ نہیں کہ انھیں عورت کے لباس سے فرق نہیں پڑے۔

یعنی عمران خان مردوں کو نفسانی خواہش کے آگے کمزور کہہ گئے ہیں کہ اگر عورت پردہ نہیں کرے گی اور تنگ لباس میں مردوں کے سامنے گھومے گی تو وہ اپنے آپ کو روک نہیں سکے گا؟  کچھ مرد و خواتین نے بھی عمران خان کے اس بیان پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ چلیں پھر وہ تمام مرد و خواتین اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ جو کچھ کسی چھ مہینے، پانچ اور سات سال کی بچیوں کے ساتھ ہوا، جو خواجہ سراؤں کے ساتھ ہوا، مدرسے کے طالبعلموں کے ساتھ ہوا اور قبر میں موجود عورت کی جو بے حرمتی ہوئی ،اس میں تنگ و فحاش لباس کا کتنا دخل تھا؟ گھروں کے اندر موجود بہن بیٹیاں بھی کیا غیر مہذبانہ لباس میں گھومتی ہیں کہ خاندان کے افراد ان پر میلی نظر رکھتے ہیں، یا مدرسے میں جانے والا بچہ نیکر اور شارٹس میں مدرسہ میں داخل ہوتا ہے کہ وہاں موجود استاد اس پر گندی نظر رکھتا ہے اور نفسانی خواہش کے آگے مجبور ہوکر اس کے ساتھ بد فعلی کربیٹھتا ہے۔

کیا قبر میں موجود عورت کا لباس بھی تنگ ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں اس سب میں عورت کے لباس کا عمل دخل ہی نہیں ہے۔ ریپ کرنے والے کا لباس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔۔ اسے جب جہاں جس کے ساتھ بد فعلی کرنی ہو وہ کرجاتا ہے نہ جگہ دیکھتا ہے نہ موقع نہ لباس، نہ اپنا رشتہ اسکا مقصد اپنے اندر پیدا ہونے والی ہوس کی آگ کو بجھانا ہوتا ہے جو وہ کسی کی عزت کو داغدار کرکے بجھا ہی لیتا ہے۔


اب کچھ عملی تدابیر کی بات کرلی جائے۔
جو مرد حضرات سمجھتے ہیں کہ عورت کا بناؤ سنگھار، تنگ لباس اورعورت کا کردار خراب ہے وہ مردوں کو ادائیں دکھا کر اپنی طرف راغب کرتی ہیں تو ایسے مرد حضرات برائے کرم اپنا کردار مضبوط کرلیں تاکہ عورت کی ایک نگاہ سے آپ پھسل نہ جائیں، اور جو مرد حضرات واقعی عورت کو عزت دیتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ روڈ پر چلتی ہر عورت کو ایک محفوظ معاشرہ فراہم کریں تاکہ انکے گھر کی عورتوں کو بھی محفوظ معاشرہ مل سکے۔


بااثر اداروں کو اختیارات دئے جائیں کہ اگر وہ کسی مجرم کو پکڑتے ہیں تو کسی سفارش یا پیسے کے عوض ان ملزموں کو آزاد نہ چھوڑیں بلکہ ان ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں، کیونکہ ہم اک اسلامی ریاست کے شہری ہیں جہاں کی حکومت اسے مدینے کی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتی رہی ہے اور جہاں تک بات ہے مدینے کی ریاست کی تو مدینے کی ریاست میں زنا بالجبر کی سزا موت سے کم کچھ نہیں ہے۔


ہمیں ضرورت ہے اک ایسے سسٹم کی جہاں زیادتی کے ملزمان کا ریکارڈ رکھا جائے تاکہ اگر کبھی وہ قانون کی گرفت سے بھاگ نکلیں تب بھی ان پر نظر رکھی جاسکے۔
اگر آپکا بچہ آپ کے پاس آکر خاندان کے کسی بھی فرد کے اپنے ساتھ بدفعلی کا ذکر کرے تو اُسے نظر انداز نہ کریں اور نہ یہ سب اسکی غلطی ہے جیسے الزامات لگائیں۔ فوراً سے پیشتر  اس انسان کو چاہے وہ آپکا کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو، کو گریبان سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں اور اس بات کی تسلی کریں کہ اسے سخت سے سخت سزا ہو۔

اپنے بچوں کو بھی انجان اور جانے پہچانے لوگوں سے اک حد تک فاصلہ رکھ کر رابطہ رکھنا سکھائیں۔
 اپنے بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ وہ صرف اپنی ماں بہن بیٹی کی نہیں بلکہ اس معاشرے کی ہر عورت کی عزت کی حفاظت بھی کریں۔
ان واقعات کی روک تھام کے لئے سیاستدانوں کا منہ دیکھنا اس مسئلے کا حل نہیں ہمیں خود ہی اس معاشرے کو بہتری کی طرف لانے کے لئے اپنا فرض نبھانا پڑیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :