فاحکم بین النّاس بالحق

اتوار 12 اپریل 2020

 Tehzeeb UL Hassan

تہذیب الحسن

ملک و قوم پر کرونا جیسی وباء نے حملہ کیا تو ڈاکٹرز کے سفید کوٹ پر وقت کے تیز جھکڑوں سے جو داغ لگے تھے۔ وہ انہوں نے دھو ڈالے. قوم کی زندگیاں بچانے کیلیے اپنی جانوں کی بازی تک لگا دی۔ حتی کہ جو میڈیکل ڈاکٹرز اپنے شعبے سے دست بردار ھو کر صحافت یا کسی دوسرے شعبے میں کام کر رہے تھے وہ بھی واپس قوم کی مسیحائی کیلیے میڈیکل خدمات میں مصروف ھو گئے۔

سب نے اس مٹی کا قرض ادا کر دیا۔۔۔

صحیح معنوں میں قوم کی مسیحائی کرنے والے یہ ڈاکٹرز اور طبی نرسنگ عملہ آج قوم کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ ساری تو نہیں لیکن بہت سی پولیس کی یونیفارم بھی اگر کہیں رشوت ستانی یا ظلم کے کچھ واقعات کے باعث داغدار تھی۔ تو آج کرونا جیسی اس آفت میں مسلسل سڑکوں چوکوں چوراہوں بازاروں میں عوام کی بھلائی کیلیے دن رات کھڑے ھو کر انہوں نے بھی خود پر لگے وہ داغ دھو لیے۔

(جاری ہے)

۔۔
اب پیچھے بچے ھماری ریاست کے اھم ترین ستون عدلیہ کے اھم ترین جزو وکلاء، جن میں سے سارے تو نہیں لیکن بہت سوں کے کالے کوٹ پر نہ جانے کب سے قانون کے بل بوتے پر دھونس دھمکیوں، عوام الناس پر ظلم، مار دھاڑ، پیسے کے عوض انصاف کا قتل عام، بےبس و غریب انسانوں پر انتہائی قبیح لب و لہجے کے استعمال، قانون کے لائسنس لے کر معاشرے میں بدمعاشی جیسے سیاہ دھبے لگے ھوئے ھیں۔

۔۔
اب دیکھتے ھیں کہ آیا کالے کوٹوں پر لگے کالے داغ نظر بھی آئیں گے یا نہیں؟ کیونکہ یہ داغ تبھی دھل سکتے ھیں جب یہ نظر آئیں، ھمیں اچھی طرح علم ھے کہ وطن عزیز پاکستان کا خواب اور اسکی تعبیر دونوں ہی علامہ محمد اقبالؒ اور جناب محمد علی جناحؒ جیسے عظیم وکلاء رہنماؤں کے مرھون منت ھیں۔ جنھوں نے اپنی قابلیت اور پرجوش فنِ رہبری سے اس قوم کیلیے الگ وطن کا خواب حقیقت میں تعبیر کروایا۔

۔۔
اس کے بعد ملک میں ان عظیم وکلاء ہستیوں کے جانشینوں یعنی قانون دان حضرات کے سپرد معاشرتی انصاف، جلد اور سستا انصاف، قانونی مساوات جیسی زمہ داریاں عائد ھوئیں جو کہ آج لگ بھگ تہتّر سال گزر جانے کے باوجود کس حد تک پوری ھوئیں، یہ ایک سوالیہ نشان ھے۔ کیونکہ آج دن تک عدالتیں کسی غریب کو سستا اور فوری انصاف مہیّا کرنے میں، اور کسی مجرم کو جو ڈنکے کی چوٹ پر جرم کرتے ھیں، انہیں سزا دلوانے میں ناکام ہی رہی ھیں۔

۔۔
عدالتی کیسوں کی غیر معمولی طوالت، تیس تیس سال جیل کاٹنے کے بعد، قیدی کی موت یا پھانسی کے بعد باعزت بری کیے جانے کے فیصلے بھی ھماری عدلیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ھیں۔ بےشمار معمولی جرائم کے ملزمان اپنی غربت کے باعث رہائی سے قاصر ھیں۔ بےشمار بڑے بڑے مجرم ڈنکے کی چوٹ پر جرائم کر کے عدالتوں کو چکما دینے اور خود کو ضمانت قبل از گرفتاری کروانے پر قادر ھیں۔

۔۔
اور یہی لمحہ فکریہ ھے۔ مجھے علم ھے عدلیہ میں منصفین اور وکلاء میں آج بھی ایسی بہت بڑی بڑی ہستیاں موجود ھیں جو اپنے کالے کوٹ کو آج بھی اپنی مثالی فرض شناسی اور ایمانداری کے سبب شفاف اور چمکتا دھمکتا رکھتی ھیں۔ انہیں اس پہلو پر سوچنا ھو گا۔ اور عدالتی فیصلوں میں مجموعی کارکردگی کو بہترین خطوط پر استوار کرنا ھو گا۔۔۔
الله رب العزت قرآن کی سورۃ "ص" میں فرماتا ھے کہ
فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ (26)
پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو
یہی آیت کریمہ عدلیہ کے آفیشل لوگو پر بھی لکھی ھوتی ھے۔

خدارا اس اھم ترین فریضے کو یقینی بنانے کیلیے اپنے ساتھیوں کو قائل کیجیے۔۔۔
ان زمہ دار و فرض شناس وکلاء کو مل کر تمام ھم راہ وکلاء کو اس سمت میں متحد کرنا ھو گا کہ عدلیہ کے زمے شفاف فیصلوں کے جو کام ھیں وہ سو فیصد نہیں تو کم از کم حتی الامکان دیانتداری، ایمانداری اور مساوات کو مد نظر رکھ کر کیے جائیں تاکہ عوام میں بڑھتی بےچینی اور مایوسی کو ختم کر کے ایک بہترین پرامن اور فلاحی اسلامی معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنایا جا سکے۔

۔۔
قوم اب بے شعور نہیں رہی۔ قوم ہر ایک شعبے کے افراد سے ان کی مجموعی کارکردگی اور ان کے عوام الناس کے ساتھ برتاؤ کو مدنظر رکھ کر ہی کسی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ھے۔ لہذ ا معاشرے میں جس جس ہنر کے افراد نے عزت کمانی ھے انہیں چاھئیے کہ پوری دیانتداری سے اپنے فرائض اور زمہ داریاں نبھائیں کیونکہ ملک و قوم کی فلاح و بہبود بھی اسی میں ھے اور ان کی عزت و تکریم کا راز بھی اسی چیز میں مضمر ھے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :