مسجدیں ریڑھ کی ہڈی ہیں

بدھ 18 نومبر 2020

Umar Farooq

عمر فاروق

یہ دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی جگہ تھی، ان کے سرپرست اسے ہدیہ کرنا چاہتے تھے(ایک روایت میں اسعد بن ضرارہ جبکہ دوسری روایت میں معاذ بن غفرا مذکور ہیں) لیکن اسے بطور ہدیہ لینے سے صاف انکار کردیا گیا، بچوں کے سرپرست اپنے لئے اعزاز کی بات سمجھتے تھے کہ ان کی زمین مسجد کے طور پر استعمال ہوگی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ زمین بلامعاوضہ قبول نا فرمائی بالآخر اس کی قیمت دس دینار طے پائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر کو رقم کی ادائیگی کا حکم دیا اور یوں 18 ربیع الاول 1ہجری کو "مسجد نبوی" کی تعمیر کا آغاز کردیا گیا.

(جاری ہے)


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیر میں خود شرکت کی، مسجد کی دیواریں پتھروں اور اینٹوں سے تعمیر کی گئیں، کھجور کے تنوں سے ستون بنائے گئے، مسجد کی چھت کھجور کی چھال، ٹہنیوں اور پتوں سے تعمیر کی گئی، مسجد کی تکمیل کے بعد تمام صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی، فجر اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں باقاعدہ مجلس کا انتظام ہوتا تھا.

آپ کے زمانے میں مسجد نبوی صرف نماز پڑھنے تک محدود نا تھی، یہاں پر آپ کی سرپرستی میں علمی محفلیں سجتی تھیں، آپ قرآن کی روشنی میں معاشرے کے مسائل حل کرتے تھے،یہ سیاسی مسائل کے حل اور قانون سازی کیلئے "پارلیمنٹ ہاؤس" کا کردار ادا کرتی تھی، قبیلوں اور علاقوں کے حال دریافت کیے جاتے تھے، احکام شرعیہ کی وضاحتیں کی جاتیں، مسجد نبوی میں مسلمانوں کو انصاف فراہم کیا گیا، یہ مسلمانوں کی تعلیم گاہ بھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے متصل پیچھے کی جانب چبوترہ تعمیر کروایا جہاں دوردراز سے تشریف لانے والے حضرات قیام کرتے تھے، اصحاب صفہ یہاں پر مستقل طور پر قیام پذیر رہتے تھے، گویا مسجد نبوی پانچ وقت کی نمازوں تک محدود نا تھی، یہ سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل حل کرنے کی جگہ اور علمی درسگاہ بھی تھی لیکن آپ بدقسمتی کا عالم دیکھیں آج ہماری مسجدیں پانچ وقت کی نمازوں تک محدود ہوچکی ہیں جبکہ زیادہ تر نماز پڑھنے والے بھی کمزور،لاچار، بوڑھے بابے ہوتے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں "ہماری مسجدیں وہ نہیں رہیں جو آج سے 1400 سال قبل تھیں" مسجدوں میں صفائی کا انتظام انتہائی ناقص ہوتا ہے، آپ ملک کی کسی بھی مسجد، دربار، آستانے یا مدرسے پر تشریف لے جائیں آپ کو وہاں پر انتہائی خوفناک بدبو بھی ملے گی اور گندگی کی انتہاء بھی، فیصل مسجد تک کے واشروم گراں حالت کا شکار ہیں، لوگ پاؤں اور بازوؤں کے ذریعے وضو کا پانی امام صاحبان تک پہنچادیتے ہیں، پورے معاشرے میں جسے کوئی پوچھتا نہیں ہم اسے اٹھاکر منبر پر بٹھادیتے ہیں اسے نا خود کچھ آتا ہے اور نا ہی یہ لوگوں کو کچھ بتا پاتا ہے، مسجدوں میں آنے جانے کے باوجود لوگوں کا حال بدحال رہتا ہے، ہم لوگوں نے مسجدوں کو آرام گاہ بنادیا ہے نماز پڑھوں اور چپ چاپ لیٹ جاؤ، دل کرے تو ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ جاؤ، سیدنا عمرفاروق فرماتے ہیں" مسجد زمین پر خدا کا گھر ہے" ہم خدا کے گھر میں بیٹھ کر خدا کے بجائے دنیا کی یاد میں محو ہوتے ہیں، چناں چہ ان حالات میں آپ خود بتائیں ہم کیسے تبدیل ہوں گے؟ ہم میں کیونکر بہتری آئے گی؟.
کیا ضرورت اس بات کی نہیں ہے کہ ہماری مسجدوں میں چند ایسی تبدیلیاں کی جائیں جن کے ذریعے معاشرے میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں مسجدیں ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرسکتی ہیں، اس کام کیلئے کسی حکومت سے امید رکھنا بہت بڑی حماقت ہوگی، میرے خیال میں یہ کام بھی ہم سب کو مل کر اور علماء کرام کو کرنا ہوگا.
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن اس ملک میں اسلام کیلئے جتنی قربانیاں علمائے کرام نے دی ہیں، جتنے جتن علماء نے کیے ہیں اس معاشرے کے کسی اور طبقے نے اسلام کی اتنی خدمت نہیں کی، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے "اسلام کی بدنامی میں سب سے بڑا ہاتھ متعصب ملا کا ہے، فرقہ واریت، شدت پسندی اور نفرت کی آگ پھیلانے میں جتنا کردار کج فہم ملا کا ہے کسی اور کا نہیں ہے" لہذا علمائے کرام کو ایسے ضابطہ اخلاق، ایسے اصول طے کرنے چاہیے جن پر پورا اترنے والا ہی منبر رسول تک پہنچ سکے.
ہماری مسجدیں پانچ وقت کی نمازوں تک محدود ہوچکی ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ "کمیونٹی سنٹر" کا کام بھی سرانجام دیتی تھیں، یہاں پر لوگوں کی کردار سازی کا کام کیا جاتا، آپ کی معیت میں سچ، جھوٹ کی اہمیت بتائی جاتی، انصاف پسندی کے فوائد سے آشنا کروایا جاتا چناں چہ ہمیں بھی مساجد کو شخصیت سازی کیلئے استعمال کرنا ہوگا، ہمیں لوگوں کو نبوت کے پہلے 13سال بھی پڑھانے ہوں گے، ہم ہفتے میں ایک دن مختص کرکے ایسی مجلس کا انتظام کرسکتے ہیں جس میں سیرت کے مطالعے کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر بھی نظر دوڑائی جائی اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ ہم مسلمان دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چل سکیں.
اسلام دنیا کا سب سے زیادہ لچکدار مذہب ہے، یہ حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق نرمی اختیار کرلیتا ہے،یہ وسعت نظری یہ لچک دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی لیکن حیرت ہے اس بات پر"اسلام جتنا وسیع مذہب ہے مسلمان اتنے ہی تنگ نظر ہوچکے ہیں" ہم انتہاء پسندی کی سرحدوں کو چھورہے ہیں، یہ صرف اور صرف "مطالعہ نہ کرنے" کی وجہ سے ہے، ہم جب تک دوسروں کے نقطہ نظر، ان کی آراء سے آشنا نہیں ہوں گے ہمیں اپنے سوا پوری دنیا کے کھیت اجڑے نظر آئیں گے، ایک وسیع المطالعہ شخص چاہے حقیقت تک نا بھی پہنچا ہو مگر وہ حقیقت کے قریب تر ضرور ہوتا ہے اور یہی قربت اسے شدت پسندی سے محفوظ رکھتی ہے لہذا ضروری ہے ہم پہلے اسلام کو خود اچھی طرح سمجھیں اور اس کے بعد خود سے پوچھیں "آج جن چیزوں کو ہم اسلام سمجھیں بیٹھے ہیں کیا ان کا اسلام سے دور دور تک تعلق واسطہ ہے بھی یا نہیں؟" مساجد میں ایک شاندار لائبریری ہو جس میں اسلامی و عصری کتب مطالعہ کیلئے ہروقت دستیاب ہوں، اگر محلے کا ایک ایک فرد بھی ایک کتاب لے آئے تو ایک بہترین لائبریری وجود میں آسکتی ہے.
ہماری مسجدوں میں صفائی کا بندوبست ہمیشہ ناقص رہا ہے، ترکی میں مساجد کی صفائی کا انتظام چند مختص لوگوں کے ذمہ ہوتا ہے یہ تھوڑا سا معاوضہ لیکر مسجدوں کی صفائی کردیتے ہیں، ہم اس معاملے میں ترکی کی تقلید کرسکتے ہیں.
سب سے بڑہ کر اسلام مسجدوں کے بغیر نامکمل ہے، ہماری مساجد کسی بھی زمانے میں حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ آباد وشاد ہیں ان میں پانچ وقت کی نمازیں ادا ہوتی ہیں،نماز جمعہ وعیدین پڑھائی جاتی ہیں، ان میں آج بھی بچوں کو الحمد سے لیکر والناس تک قرآن سکھایا جاتا ہے آخر کن کی بدولت؟ یہ چند ایسے سخی لوگ ہیں جو بغیر کسی لالچ کے اسے حضور کی نوکری سمجھ کر کرتے جارہے ہیں، لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، انھیں اس معاشرے نے سب زیادہ محروم رکھا ہے باوجود اس کے یہ تسلسل سے اپنا کام کرتے چلے جارہے ہیں، ہم ایک طرف اسلام کے گن گاتے نہیں تھکتے، ہم حضور سے عشق کے دعویدار بھی ہیں جبکہ دوسری طرف جو لوگ حضور کا کام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن، آپ کا جھنڈا لیکر آگے بڑہ رہے ہیں ہم ان کی ضروریات تک کا خیال نہیں رکھ سکتے، ہم انھیں عام مزدور سے بھی کم تنخواہ دیتے ہیں ہم کیسے عاشق ہیں، ایسے عاشقوں کو ڈوب مرنا چاہیے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :