بنیادی ضروریات خوشی کیلئے بہت اہم ہیں

پیر 29 مارچ 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

اس دنیا میں آنے والے ہر شخص کو یہاں کے جھمیلوں سے الجھنا پڑتا ہے، مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں، اسے اندیشوں کا خوف ستاتا ہے، تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں، قدرت نے معاملات زندگی کچھ اس انداز سے تشکیل دیے ہیں کہ کسی کو کوئی فرار نہیں، زندگی کا بوجھ ہر کسی کو اپنی بساط اور اوقات کے مطابق اٹھانا پڑتا ہے، زندگی کس وقت، کونسا روپ دھار کر ہمارے سامنے آن کھڑی ہو ہم کچھ نہیں جانتے تاہم اس کے باوجود ہم تکلیفوں، مصیبتوں اور دکھوں سے بھاگنے اور بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ہم کسی بھی صورت میں زندگی کی تلخیوں کو اپنے نزدیک پھٹکنے دینا نہیں چاہتے دراصل انسان فطرتاً سہل پسند واقع ہوا ہے لیکن حقیقت میں زندگی مشکلات کا ایک خوفناک سمندر ہے جس میں ہم میں سے ہر کوئی، ہر وقت، صبح وشام، دن رات غوطے کھا رہا ہوتا ہے لیکن ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ انسان مکمل طور پر بے بس ہے، یہ کچھ کر ہی نہیں سکتا، زندگی کی بے رحم لہریں اسے کبھی اٹھا کر وہاں پٹخ دیں اور کبھی کسی اور طرف، جبکہ یہ صرف بے بسی کی تصویر بنے منہ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتا رہے.
ہم سب ساری عمر اس جدوجہد میں لگے رہتے ہیں کہ ایک بہترین، خوشگوار اور شاندار زندگی گزار سکیں، "کوالٹی آف لائف" کو انجوائے کرسکیں، ہم اس کی خاطر ساری عمر جوتیاں گھساتے گھساتے قبر میں جا گرتے ہیں، ہم سب نے یہ سنا ہوگا "ہر کوئی پیسہ کا یار ہے، ہر کسی کو پیسہ سے پیار ہے"  درحقیقت ہر کسی کو اپنے آپ سے پیار ہے، اسے اپنی خوشی سے پیار ہے، ہر کوئی اپنی خوشی کا یار ہے اور انسان کو خوشی سے پیار کیوں نہ ہو؟ آخر پیسہ کے بغیر بھی تو خوش رہ پانا بہت مشکل ہے، زندگی کا مسئلہ یہ کہ یہاں خواہش بھی پیسہ کی محتاج ہوتی ہے، یہاں تعلیم بھی پیسوں سے ملتی ہے، انسان کو پیٹ پالنے کے لیے بھی پیسہ درکار ہوتا ہے، آپ لوگوں کو لیکچر پلا کر خوش رہنا نہیں سکھا سکتے، آپ لوگوں کو چند مثالیں دے کر خوش رہنا نہیں سکھا سکتے، وہ تو بڑے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی خواہشیں ہی مار دیتے ہیں، جن کی نظر میں زندگی کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، جو بڑے مقصد، بڑے کام کے لیے پیدا ہوئے ہوتے ہیں، قدرت نے جن پر خاص عنایت کی ہوتی ہے، عام آدمی کے لئے، ایک بے بس آدمی کے لیے، ہر روز غربت، بے روزگاری اور بھوک سے لڑنے والے شخص کے لئے یہ لوگ مثال کیسے بن سکتے ہیں؟ آپ کو بہرحال غریب کو خوش دیکھنے سے پہلے اس کی غربت ختم کرنی ہوگی، بے روزگاروں کو روزگار دینا ہوگا، بھوکے کی خوشی تو بھوک ختم ہوجانے میں ہے اور آپ اس کو کہتے ہیں یہ اولیاء بھی تو تھے جنہوں نے اپنی خواہشوں کو تیاگ دیا، جنہوں نے ہر مشکل سہی لیکن ماتھے پر شکن نہ آنے دیا، ایک تم ہو جس کو اپنی بھوک کی پڑی ہے، کیا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ آخر تم میں اور ان میں کیا فرق ہے؟
فرق ہی تو ہے جو ہم سمجھ نہیں پارہے، سب انسانوں کے کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں، انہیں روزانہ بھوک ستاتی ہے، انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہوتا ہے، ان کو بجلی گیس کے بل اور سکول کی فیسیں ادا کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک ان کی یہ بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں یہ خوش نہیں رہ سکتے...! بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، گھر بیٹھی بیٹی کی عمر نکلتی جارہی ہے، زمانہ مفت میں کچھ دینے کے لیے تیار نہیں، گھر میں نہ پانی ہے، نہ گیس اور نہ ہی بجلی جبکہ آپ نے قناعت کرنی سیکھ لی ہے، آپ کو خوش رہنے کا فارمولا مل گیا ہے، یہ سب سراب ہے، خود کو دھوکہ دینے والی باتیں ہیں، انسان کی ضرورتیں پوری نہ ہوں تو یہ خود سے بغاوت کرنے لگ جاتا ہے، یہ زمانے کے سر پہ سوار ہو جاتا ہے اور جب سوسائٹی کے نصف لوگوں کی حالت یہ ہو تو پھر انھیں اخلاق کی باتیں نہیں سوجھتی، ولیوں کے لیکچرز بھی ان کے پلے نہیں پڑتے چناچہ لوگوں کو بھوک برداشت کرنا نہ سکھائیں، انھیں صبر وقناعت کے کھوکھلے درس نہ دیں، غربت کے آگے سرخم تسلیم کرنے کی کاریگریاں نہ سکھائیں
یہ کیا بات ہوئی کہ آپ غربت قبول کرلیں، آپ مشکلات کو یہ سوچ کر جھیلنا شروع کردیں کہ آج تک مشکلات سے کون بچا ہے، آپ اگر مشکلات کو سہنے کا فن سیکھ رہے ہیں تو آپ مشکل کو "خوشی" میں بدلنے دینے کا فن کیوں نہیں سیکھ لیتے؟ آپ بے سکونی، بے چینی کو "سکون" میں تبدیل کیوں نہیں کردیتے؟ غربت کو امارت میں بدل دینے میں کیا مضائقہ ہے؟ مشکلات کے سمندر میں رہتے ہوئے بھی خوشیاں تلاش کر لینے میں کیا حرج ہے؟ لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے ہم اپنی "بنیادی ضروریات" سے باہر نکلیں، حقیقت تو یہ ہے کہ عام آدمی کی ساری خوشیاں ہی اس میں کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات سے مکمل طور پر باہر نکل آئے یا پھر ان کو سرے سے ختم کر دے اور یہ کام وہ کر نہیں سکتا، یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں لہذا ہمارے پاس یہی آپشن بچتا ہے کہ ہم بنیادی ضروریات سے باہر نکلیں اور یقین کریں ایک عام آدمی، ایک مڈل کلاسیے کی زیادہ تر مشکلات بھی یہی ہیں
لیکن سوال پھر وہی کہ کیا اس کے بعد انسان مطمئن ہوجاتا ہے؟ اس کو خوشی نصیب ہو جاتی ہے؟ زندگی کی مشکلات اس کے لئے ختم ہو جاتی ہیں؟ جی بالکل نہیں...! لیکن خوشی کا عمل شروع ہو جاتا ہے، مشکلات کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں کیوں کہ خوشی یا  اندرونی تسکین فقط بنیادی ضروریات پوری کرنے سے نصیب نہیں ہوتی، بنیادی ضروریات کے بعد اگلی اسٹیج شروع ہوجاتی ہے جس میں ہمیں اخلاقی طور پر اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہوتا ہے، اخلاق کی تکمیل ہمیں خوشی کے ایک اور ذائقے ایک اور لذت سے آشنا کرواتی ہے، اس کے بعد انسان کو روحانی طور پر مضبوط ہونا پڑتا ہے جس سے ہماری روح، ہمارا وجود کیف وسرور اور مسرت ومستی کی نئی دنیا سے لطف اندوز ہوتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب انسان کو مکمل طور پر "انٹرنل پیس" نصیب ہوجاتا ہے یہ بس ہماری صوابدید پر ہے کہ ہم خود کو کہاں اور کس سٹیج تک لے جاتے ہیں، جہاں تک عام آدمی، ایک غریب اور ایک مڈل کلاس شخص کا سوال ہے تو اس کے لیے اس سے بڑی نعمت اور خوشی کیا ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات سے باہر نکل آئے اور پھر دنیا کی زیادہ تر آبادی بھی تو اپنی بنیادی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہے!�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :