ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ ۔ قسط نمبر 3

جمعرات 9 ستمبر 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

اس سیریز کا دوسرا حصہ مکمل ہوا تو چند شناساؤں کی جانب سے یہ اعتراضات آنا شروع ہوگئے" آپ فقط یورپینز اور امریکنز کی سائیڈ لے رہے ہیں اور مسلمانوں کے منفی پوائنٹس نکال نکال کر ان کو ننگا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں" میں نے ان میں سے چند ایک سے عرض کی"میرا موضوع ابھی ادھورہ ہے، گورے مسلمانوں یا اپنے مذہب سے ہٹ کر باقیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ وہ لوگ اقلیتیوں کے بارے میں کن خیالات کے حامل ہیں؟ میں ان سوالوں کے جوابات بغیر کسی تعصب اور جانبداری کے آپ کہ سامنے رکھوں گا، اس کے بعد آزادنہ رائے اختیار کرنے کا حق مکمل طور پر آپ کی اپنی صوابدید پر ہوگا اور یہ بھی کہ آپ جذبات اور سماج کی پیروی کرتے ہوئے مقبول بیانیہ کی جانب جھکتے ہیں یا پھر حقیقت کی روشنیاں دل میں اتارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں.
اقلیتیوں کو لے کر ہم کن خیالات کے حامل ہیں میں گزشتہ دو کالموں میں ان پر مفصل بحث کرچکا ہوں لیکن آج ہم گوروں (امریکنز اور پورپینز) کی بات کریں گے کہ وہ اپنے مذہب سے ہٹ کر دوسرے افراد اور ملک میں آباد اقلیتیوں کے لئے کس طرح کے جذبات رکھتے ہیں.
یورپ میں "سیکولرائزیشن" وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود خطے کے زیادہ تر لوگ آج بھی عیسائی کے طور پر جانے جاتے ہیں یقینا مغرب کا ایک بہت بڑا حصہ خود کو غیر مذہبی قرار دیتا ہے اور کئی ممالک میں تقریبا آدھی سے زیادہ آبادی کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو مذہبی ہیں اور نہ ہی روحانی لیکن اس کے باوجود جب ان سے یہ پوچھا گیا "آپ اگر کسی مذہب سے وابستہ ہوتے تو وہ کونسا ہوتا؟ یا اگر آپ کو کوئی مذہب اختیار کرنے کا موقع دیا جائے تو آپ کونسے مذہب کو چنیں گے؟" جوابا زیادہ تر لوگوں نے عیسائیت اختیار کرنے کا اشارہ دیا، جرمنی میں آج بھی 71% عیسائی جبکہ فرانس میں 64% عیسائی پائے جاتے ہیں، یورپ میں بہت سارے لوگ باقاعدگی سے چرچ جاتے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، مغربی یورپ کے عیسائی بشمول چرچ نہ جانے والے افراد ایک اعلی طاقت پر یقین رکھتے ہیں اگرچہ بہت سے افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ خدا پر یقین نہیں رکھتے تاہم اس کے برعکس زیادہ تر چرچ میں شرکت کرنے والے مسیحی کہتے ہیں کہ "وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں" اسی طرح امریکہ جیسے ممالک میں آج بھی کثیر تعداد میں لوگ خدا، ماورائی طاقتوں اور غیر مرئی قوتوں پر یقین رکھتے ہیں، ان لوگوں کا آج بھی کسی نا کسی صورت مذہب سے تعلق قائم ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پورپ میں مذہب مرا نہیں ہے اور آپ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوں گے"عیسائیت آج بھی دنیا میں سب بڑا مذہب ہے، دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ کرسچنز آباد ہیں لہذا اس  اعتراض کی بھی کوئی تک نہیں بنتی کہ "گورے کا مذہب سے کوئی تعلق واسطہ نہیں!" ہاں اتنا ضرور ہے کہ گورا مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھتا ہے، وہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو یہ اس کی اپنی سردرد ہے لیکن اس کو کسی دوسرے سے کوئی سروکار نہیں، یہ ہماری طرح مذہب کو دوسروں پر مسلط نہیں کرتا یا زبردستی کسی کو کلمہ پڑھا کر مومنین کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کرتا خیر ہم اعداد وشمار کی طرف آتے ہیں. آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی امریکہ سمیت یورپ کے زیادہ تر ممالک کے لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ "وہ مسلمانوں کو اپنے خاندان کا فرد یا پڑوسی کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہوں گے"، پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے کے مطابق غیر مسلم امریکیوں کی اکثریت (89%) کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کو "پڑوسی" کے طور پر قبول کرنے لئے راضی ہیں اور اسی سروے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ زیادہ تر لوگوں (79٪) کا ماننا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے "خاندان" کے فرد کے طور پر قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہیں تاہم یورپی باشندے امریکیوں کے مقابلے میں تھوڑے سخت مزاج ثابت ہوئے ان کا کہنا تھا "وہ مسلمانوں کو اپنے خاندان کا حصہ بنانے پر غور کرسکتے ہیں"، تقریبا دو تہائی غیر مسلم فرانسیسی (66%) کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان میں ایک مسلمان کو قبول کرنے پر رضا مند ہیں جبکہ برطانیہ میں یہ تعداد %53 آسٹریا میں %54 جرمنی میں 55% ہے اور اٹلی میں 43٪ ہے.
تعلیم یافتہ افراد نے اس معاملہ میں کشادگی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا، امریکہ اور یورپ میں کیے جانے والے سرویز میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد میں مسلمانوں کی زیادہ مقبولیت پائی گئی مثال کے طور پر امریکہ میں کالج کی ڈگری رکھنے والے 86% افراد مسلمانوں کو اپنے خاندان میں قبول کرنے کے لیے تیار تھے جبکہ بغیر ڈگری کے یہی تعداد 75% فیصد بنتی تھی اسی طرح جرمنی میں کالج کی تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت 67% کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان میں ایک مسلمان کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے، برطانیہ میں 71% آسٹریا میں 67% لوگ انھیں خیالات کے حامل پائے گئے، امریکہ میں سیاسی جماعتوں میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن دونوں میں اکثریت کا کہنا تھا کہ "وہ اپنی زندگی میں مسلمانوں کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں".
پیو ریسرچ سینٹر کے ہی ایک سروے سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ "فرانسیسی یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے بارے میں بہت سے دوسرے یورپی باشندوں کے مقابلے میں زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں" 89% فرانسیسیوں نے یہودیوں کے حق میں رائے دی جبکہ مسلمانوں کے حق میں یہی تعداد 72% تھی، تقریبا ہر دوسرے یورپی ملکوں میں اکثریت نے یہودیوں کے حق میں اچھے خیالات کا اظہار کیا جن میں برطانیہ 83% اور جرمنی 82%، یونان جہاں کے بہت سے لوگوں کا کہنا تھا وہ یہودیوں کے بارے میں ایک اچھا نظریہ رکھتے ہیں ان کی تعداد 47% تھی تاہم چند ممالک ایسے بھی تھے جہاں کے لوگ یہودیوں کے بارے کم کم اچھے خیالات رکھتے تھے جیسا کہ پولینڈ اور اٹلی کے لوگ یہودیوں کے بارے میں ناپسندیدہ رائے رکھتے تھے بہرحال اعداد شمار پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ گورے ہمارے بارے میں کن خیالات کے حامل ہیں عمومی طور پر وہ نہ صرف ہمارے بارے میں مثبت خیالات رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ ہمیں اپنے خاندان تک کا حصہ بنانے کیلئے تیار ہیں، یہ لوگ ہمارے نوجوانوں کی اپنی یونیورسٹیوں میں جگہ دیتے ہیں، ان کے وزراء اپنے اہم کاموں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی عیادت کے لئے پہنچ جاتے ہیں، ہمارے بیشمار لوگ اور مسلمان بھائی یورپین ممالک اور امریکہ میں آباد ہیں یہ وہاں عزت سے نہ صرف روزگار کماتے ہیں بلکہ بیشمار لوگ اپنی محنت، ہنر اور حوصلوں سے وہاں کے باشندوں سے آگے نکل جاتے ہیں اور کوئی بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، دیکھیں ممکن ہے آپ کے ذہن میں گستاخانہ خاکے یا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم منڈلا رہے ہوں آپ کو بغداد، عراق، شام، برما اور فلسطین یاد آرہا ہوں لیکن وہ خالصتا "سیاسی" مسائل ہیں ان کا تعلق "طاقت اور ڈنڈے" سے ہے، اس میں عبداللہ نزوروف جیسوں کے جذباتی اقدامات ہیں جبکہ ہم "اقلیت اور اکثریت کے تعلق" کی بات کررہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ہمارے یہاں شدت ہی شدت اور وہاں محبتیں ہی محبتیں ہیں، آپ اپنا دامن بچانے کے لئے یہ راگ مت آلاپیں کے "سب شدت پسند نہیں ہوتے، ہر کوئی مندر نہیں توڑتا یا کسی کا گھر نہیں جلاتا" یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ یہاں پر اکثریت پرلے درجے کی شدت پسند ہے!  کیوں کہ ان کے دلوں میں یورپ فتح کرنے کی خواہش موجود ہے، یہ لوگ آج بھی عیسائیوں کی گردنیں اڑانے کی آرزو رکھتے ہیں، یہ طاقت کے زور پر غیر مسلموں کو اسلام کے پرچم تلے دیکھنا چاہتے ہیں، ہاتھوں میں بندوقیں تھامے اور سروں پر بھاری بھاری پگڑ باندھے لوگ ہماری خواہشات کا ہی عکس ہیں اور پھر ہم نے تو چند ہفتے پہلے ان کی آمد پر خوب دھمال اور بھنگڑے بھی ڈالے تھے لہذا یہ کہنا کہ سب شدت پسند نہیں بلکل غلط بات ہے! ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ سب شدت پسند مندر نہیں توڑتے لیکن ان کے دلوں میں بھی کہیں نا کہیں تلوار کے ساتھ گردن اڑانے کی خواہش موجود ہوتی ہے اور پھر جب آپ آج کے زمانے میں رہتے ہوئے یہ کہیں کہ "میں بلکل ٹھیک ہوں بلکہ اتنا زیادہ ٹھیک کہ باقی سارے مذاہب ہی سرے سے غلط اور ان کے پیروکار قابل گردن زنی ہیں" تو جناب مجھے سمجھائیے گا اس سے بڑی شدت پسندی اور کیا ہوتی ہے؟"�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :