زمانہ تونہ بدلا۔۔پرہم بدل گئے

جمعہ 3 مارچ 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

چاند سورج۔۔ دن اور رات وہی۔۔ آسمان کا رنگ بھی وہی ۔۔زمین کے خوبصورت نظارے بھی وہی ۔۔ پہاڑ بدلے نہ صحرا تبدیل ہوئے۔۔ لیکن محض چند سالوں میں ہم اور حالات اتنے بدل گئے ہیں۔۔ کہ جس کا اب کوئی اندازہ ہی نہیں ۔۔ کل تک تو ہم سب بڑے پرسکون تھے ۔۔ لیکن جدید سہولیات کے اچانک حملے نے ہمیں اتنا بے سکون ۔۔ بے قرار اور پریشان کر کے رکھ دیا ہے کہ آج ہم میں سے کوئی بھی شخص پرسکون نہیں ۔

۔ موبائل انٹرنیٹ۔۔پراڈووپجاروگاڑیوں سے لے کر آج تو دنیا کی ہر سہولت ہمیں میسر ہے ۔۔مگر وہ سکون اورآرام جو پسماندگی ۔۔۔ غربت اور سادگی کے پرانے دور میں ہماری زندگیوں کاایک لازمی جزتھا ۔۔ آج کہیں نظر نہیں آرہا ۔۔ مانا کہ موبائل انٹرنیٹ اور جدید سائنسی سہولیات سے فاصلے کم ہوتے ہوں گے۔

(جاری ہے)

۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ موبائل انٹرنیٹ جیسی ان سہولیات نے دلوں کے فاصلے بہت بڑھا دئیے ہیں۔

۔۔ رہی سہی کسر اوپر سے نوکریوں اور دیگر دنیاوی مصروفیات نے نکال دی ہے ۔۔ جدید سہولیات اور دنیاوی مسائل و پریشانیوں کے ہاتھوں آج ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ اب ہمارے پاس بیگانے تو بیگانے ۔۔اپنوں کیلئے بھی ٹائم نہیں ۔۔ مولانا زاہد منصور سے ہزارہ کے خوبصورت شہر ایبٹ آباد میں برلب شاہراہ ریشم مختصر ملاقات کے بعد میرے دل و دماغ کے بند دریچے اچانک کھل گئے اور میں ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا ۔

۔مولانا زاہد منصور میرا قریبی رشتہ دار ہے ۔۔ ہمارا آپس میں نہ صرف دلوں بلکہ خون کا بھی ایک مضبوط رشتہ ہے۔۔ لیکن اس کے باوجود کئی سال بعد ہونے والی ملاقات میں بھی جدید سہولیات اور نام نہاد ترقی کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل ۔۔ نوکری۔۔پریشانیوں اور مصروفیات کے باعث ہم ایک دوسرے کو زیادہ ٹائم نہ دے سکے ۔۔ دلی لگاؤ۔۔ خونی رشتہ اور انتہا ء کا پیار و محبت ہونے کے باوجود مولانا کے پاس ٹائم تھا اور نہ ہی میرے پاس فرصت ۔

۔ دنیاوی مسائل و مصروفیات میں جکڑی آنکھوں سے چند لمحوں کیلئے آپس میں ہی ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔ جادو ۔۔نظربد اور جنات سے بچاؤ کیلئے تو اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب،، وظائف المنصور،،جوواقعی اپنی مثال آپ ہے بطور تحفہ مجھے دے دی ۔۔اس کاایک ایک ورق ۔۔ایک ایک موتی تواب میری رہنمائی ضرورکرے گا۔۔یہ کتاب میرے زخموں کے لئے مرہم بھی ضرورثابت ہوگی۔

۔ لیکن جاتے جاتے مولانا نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیاہے ۔۔ کیا واقعی آج ہمارے پاس اپنوں کیلئے بھی ٹائم نہیں ۔۔؟ وہ بھی تو ایک وقت تھاجب مکان کچے اور لوگ پکے ہوا کرتے تھے ۔۔ آج تو مکان پکے ہو گئے ہیں مگر ہم۔۔ ہم اتنے کچے ہو چکے ہیں کہ جس کی کوئی مثال ہی نہیں ۔۔ ہمارے دلوں میں اپنوں کیلئے جو پیار اور محبت ہوا کرتی تھی ۔۔آج اس پیار و محبت کا کہیں دور دور تک بھی نام و نشان نہیں ۔

۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے جب ہم گاؤں میں رہتے تھے ۔۔مولانا زاہد منصور کا گاؤں ہمارے گاؤں سے بہت دور تھا ۔۔ اس وقت آمدورفت کیلئے گاڑیوں کی اس طرح کوئی خاص سہولت بھی نہیں تھی۔۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے بڑے ایک دوسرے کا صرف دیدار کرنے کیلئے پہاڑی سلسلوں میں پانچ سے چھ گھنٹے آنے اور پھر اسی طرح پانچ سے چھ گھنٹے جانے کا طویل پیدل سفرطے کرتے تھے۔

۔ علاقے میں جس سے جان پہچان نہ بھی ہوتی تب بھی لوگ ان کی غمی و خوشیوں میں ضرور شریک ہوتے ۔۔لیکن آج بھائی بھائی سے ملنے کیلئے بھی دس منٹ کا راستہ طے کرنے کیلئے تیار نہیں ۔۔ موبائل انٹرنیٹ ۔۔ جدید سہولیات اور دنیاوی مصروفیات نے ہمیں اپنوں سے دور ۔۔بہت دور کر دیا ہے ۔۔ آج جس شہر ۔۔ جس گلی ۔۔ جس محلے اور جس گھر میں بھی دیکھو ۔۔ بھائی ۔

۔ بہن اور ماں باپ موبائل میں کھوئے ہوئے نظر آئیں گے ۔۔ ہمارے دلوں میں اپنوں کیلئے پیار و محبت کا جو رشتہ ہوا کرتا تھا وہ آج موبائل و انٹرنیٹ سے ہم نے جوڑ دیا ہے ۔۔اسی وجہ سے آج ہمارے پاس موبائل سے سر اٹھانے اور اپنوں کے سامنے سر جھکانے کیلئے ٹائم نہیں ۔۔چنددن پہلے ایک صاحب ملے۔۔کہنے لگے ۔۔جوزوی صاحب ۔۔اس موبائل نے توہمیں تباہ کردیاہے ،،جس طرف دیکھو۔

۔اچھے بھلوں کے ہاتھوں میں بھی یہ کمبخت نظرآئے گا۔۔پھرفرمانے لگے۔۔کچھ دن پہلے ایک رشتہ دارکے ہاں جاناہوا۔۔مہمان خانے میں ہماری شکل دیکھنے کے لئے توسب آئے ۔۔لیکن آنے کے ساتھ ہی ایک کے بعدایک۔۔ اس کمبخت موبائل میں اس طرح مصروف اورکھوگئے ۔۔جیسے انہوں نے کبھی موبائل دیکھاہی نہ ہو۔۔ایک دونہیں ۔۔سارے موبائل کے اندرگھسے ہوئے تھے ۔

۔یوں لگ رہاتھا۔۔کہ جیسے۔۔ یہ سارے ۔۔اس کے اندرکسی بھارتی فوجی۔۔جاسوس یاایجنٹ کوتلاش کررہے ہوں ۔۔صاحب نے جوکہا۔۔بالکل ٹھیک کہا۔۔آج شمال سے جنوب اورمغرب سے مشرق تک ۔۔کسی ایک فرد اورگھرنہیں ۔۔ہم سب کایہی مسئلہ ہے ۔۔موبائل وانٹرنیٹ کی بیماری نے آج ہمیں اپنی آغوش ۔۔شکنجے اورگھیرے میں اس طرح جھکڑلیاہے ۔۔کہ اب ہم ۔۔ان سے جان بھی ۔

۔چھڑانہیں پارہے۔۔ماناکہ مولانازاہدمنصور جیسے بہت سارے لوگ موبائل وانٹرنیٹ کی بیماری سے آج بھی محفوظ ہیں ۔۔لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ انہی جدیدسہولیات کاسایہ پڑنے کی وجہ سے آج ہم اپنوں کے لئے بھی بیگانے۔۔ بیگانے سے لگ رہے ہیں ۔۔وہ بھی توایک وقت تھاجب بہن ۔۔بھائی۔۔ماں ۔۔باپ اوردیگرقریبی رشتہ دارگھنٹوں ایک ساتھ وپاس بیٹھ کرآپس کی باتیں کرتے تھے۔

۔وہ بھی توایک وقت تھا۔۔جب کوئی اپناکسی اپنے سے ملنے کے لئے میلوں کاسفرپیدل طے کرکے بڑی مشکل اورتکلیف سے اس تک پہنچتاتھا۔۔جدیدسہولیات نے توآج ہمیں نہ صرف اپنوں بلکہ بیگانوں کے بھی بہت قریب کردیاہے۔۔دشمن کی خبربھی آج دشمن کوچندلمحوں میں مل جاتی ہے ۔۔مگرافسوس کہ انہی سہولیات کی فراوانی کے باعث ہمارے دل بہت۔۔بہت دورہوگئے ہیں ۔

۔آج دن رات تووہی ہیں۔۔ لیکن ہم بہت بدل چکے ہیں ۔۔ہم نہ بدلے ہوتے تو۔۔مولاناکے پاس نہ وقت کی کمی ہوتی اورنہ ہی میرے پاس فرصت کی کوئی قلت۔۔حالات نے ہمیں وقت اورفرصت کی زنجیروں میں جھکڑکرتماشاسابنادیاہے۔۔یہ نوکریاں۔۔دنیاوی مسائل ۔۔پریشانیاں۔۔مصائب ومشکلات توپہلے بھی تھے۔۔لیکن ہمارے بڑوں نے کبھی حالات کے ہاتھوں اپنوں کونہیں چھوڑا۔۔آج ہم اپنی ذات اورمفادکیلئے اپنوں کوچھوڑتے جارہے ہیں ۔۔موبائل وانٹرنیٹ سمیت دیگرجدیدسہولیات سے ہمیں ضروراستفادہ کرناچاہئے ۔۔لیکن اتنااستفادہ بھی نہیں کہ کہیں ہمارے اپنے ہم اورہم ان کوصرف دیکھتے ہی نہ رہ جائیں ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :