خدارا قوم کو مزید تماشا نہ بنائیں

جمعہ 13 اکتوبر 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

میرمحمد اعوان کاشمارنہ صرف ہزارہ بلکہ ملک کے بانی اورسینئرصحافیوں میں ہوتاہے۔ان کے سراورداڑھی کے بال صحافت کی پرخاروادیوں میں آگے بڑھنے اورملک وقوم کیلئے ،،کچھ کرنے کی جستجو،،میں سفیدہوئے ۔۔اپنی زندگی صحافت کے نام وقف کرنے کی وجہ سے انہیں بابائے صحافت بھی کہاجاتاہے ۔۔میرمحمد اعوان نے جس دورمیں صحافت کے دامن کوپکڑااس وقت اخباروں اورنیوزچینلزکی اس قدرریل پیل اورمنڈی نہیں تھی ۔

۔اس وقت غالباًکوئی ایک ادھ ٹی وی چینل اورایک دواخباریں تھیں ۔۔اس دورمیں سب سے زیادہ مشکل کام صحافی بنناہوتاتھاکیونکہ لوگوں کوحالات وواقعات سے باخبررکھنے کے لئے جان ہتھیلی پررکھنے کے ساتھ اوربھی بڑے پاپڑے بیلنے پڑتے تھے۔۔اسی وجہ سے اس وقت صحافت بروزن عبادت کے معیارپرسوفیصدپورااترتاتھا۔

(جاری ہے)

۔آج حساب سے بھی زیادہ اس ملک میں ٹی وی چینلزاورشمارسے بالاتراخبارات ہیں ۔

۔لیکن اس کے باوجودصحافت وہ صحافت نہیں جومیرمحمداعوان کے دورمیں تھی ۔۔اخباروں اورنیوزچینلزکی اس ریل پیل اورمنڈی میں صحافت کے ساتھ آج جوسلوک ہورہاہے اس سے میرمحمداعوان بھی نالاں ہیں ۔۔یہ توہم بھی کہتے ہیں کہ چورکوایمانداراورکسی ایماندارکوڈاکوکہنایہ صحافت نہیں ضلالت ہے لیکن میرمحمداعوان نے تواس سے بھی بڑھ کرایک بات کہی ہے کہ صحافی کاکام خبردیناہے فریق بننانہیں ۔

۔صحافی اگرفریق بن جائے توپھرغیرجانبداری کیسے۔۔؟اوراگرغیرجانبداری کاعنصرباقی نہ رہے توپھراسے آپ منافقت توکہہ سکتے ہیں صحافت نہیں ۔۔کیونکہ منافقت میں توسب چلتاہے مگرصحافت میں نہیں ۔۔ویسے صحافت کوتوآج بھی عبادت کانام دیاجاتاہے لیکن آج اورکل کی صحافت میں زمین وآسمان والا وہی فرق ہے جوہماری نمازوں اورعبادات میں ہے ۔۔پچھلے زمانے میں لوگ جب نمازپڑھتے تھے توان کے آگے پیچھے سے اگرکوئی قیامت بھی گزرتی توان کوپتہ ہی نہ چلتا۔

۔آج تونمازکے دوران اگرہمارے سامنے سے کوئی چیونٹی بھی گزرجائے تواس کی شکل وصورت پھربرسوں تک ہمیں یادرہتی ہے کہ فلاں نمازمیں اس قسم اوررنگ کی چیونٹی ہمارے سامنے سے گزری تھی ۔۔لین دین اوردکانوں کاحساب کتاب توہم ہرنمازمیں ویسے بھی کرتے رہتے ہیں ۔۔اس دورمیں چورکوچواورڈاکوکوڈاکوہی کہاجاتاتھاآج توچور،ڈاکواورلوٹے ولٹیروں کوسیاستدان۔

۔ڈاکٹر۔۔انجینئر۔۔صحافی ۔۔کھلاڑی ۔۔ٹیچرنہ جانے کیاکیانام دےئے جاتے ہیں لیکن اس وقت صحافی صرف صحافی۔۔سیاستدان صرف سیاستدان ۔۔ڈاکٹرصرف ڈاکٹرمطلب ہرشخص اپنے پیشے کے ساتھ اس طرح مخلص ہوتاتھاکہ کسی دوسرے کواس کوکوئی اورنام دینے کی کیا۔۔ذرہ بھی کچھ برابھلاکہنے کی نوبت وضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔۔جب سے صحافت اورطب سمیت دیگر مقدس شعبوں کوکمائی کادرجہ دے دیاگیاہے اس کے بعدسے چوروں ۔

۔ڈاکوؤں۔۔سیاستدانوں۔ڈاکٹروں۔انجینئروں۔صحافیوں ۔کھلاڑیوں اورٹیچروں میں تفریق بھی ختم ہوکررہ گئی ہے ۔۔آج جس کواپنانام تک لکھنانہیں آتاگلے میں کارڈاورہاتھ میں کیمرہ پکڑکروہ صحافی بن جاتے ہیں ۔جس کی میٹرک بھی ہماری طرح فیل ہووہ استادجی بن کرقوم کے مستقبل سے دونوں ہاتھوں سے کھیلناشروع کردیتے ہیں۔۔جوچنددوائیوں کے نام یادکرلیتے ہیں وہ سپیشلسٹ ڈاکٹرکادرجہ حاصل کرکے قوم کی چمڑی اورکال اتارنے پرلگ جاتے ہیں۔

جس کوفیتہ پکڑنانہیں آتاوہ سرکارکے کندھوں پرسوارہوکرانجینئرکارتبہ حاصل کرلیتے ہیں۔۔چوری چکاری اورلوٹ مارکے سواجن کاکوئی اورکام نہ ہو وہ الیکشن لڑکرقوم کے رہبرورہنماء اورسیاستدان بن جاتے ہیں ۔۔جس ملک میں چوراورڈاکوؤں کوسیاستدان۔۔ڈاکٹر۔۔انجینئر۔۔صحافی ۔۔کھلاڑی ۔۔ٹیچر۔۔پولیس اورمحافظ کے نام دےئے جاتے ہوں وہ ملک پھرترقی کی دوڑمیں پیچھے اورآئی ایم ایف وورلڈبینک کامقروض نہیں ہوگاتواورکیاہوگا۔

۔؟ جس ملک میں ثناء خوانوں اوردرباریوں کوصحافی کہاجاتاہو۔۔جہاں مٹی کی گولیاں بناکرچھوٹے چھوٹے شاپروں میں لوگوں پرفروخت کرنے والے ڈاکٹرہوں ۔۔اپنی تعلیم وتربیت سے بے نیازلوگ جہاں قوم کے معماربنے ہوں ۔۔اپنے گھرکی ٹیڑھی دیوارسیدھی نہ کرسکنے والے جہاں ملک کے نامورانجینئرزبن بیٹھے ہوں ۔۔چوری ،چکاری اورلوٹ مارمیں پوری دنیاکومات دینے والے جہاں قوم کی نمائندگی ۔

۔رہنمائی اوررہبری کے فرائض سرانجام دیتے ہوں ۔۔وہاں قائدکے ہاتھوں بننے والے عظیم پاکستان کاحشر پھرکسی قبرستان سے مختلف کیسے ہوگا۔۔۔۔؟آج مسائل کاروناتوہم سب روتے ہیں مگراپنے گریبان میں ہم میں سے کوئی بھی نہیں جھانکتا۔۔یہ توقدرت کاقاعدہ اورقانون ہے جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی ان پرحکمران مسلط کردےئے جاتے ہیں ۔۔آج نوازشریف۔۔آصف علی زرداری۔

۔پرویزمشرف ۔۔عمران خان اوردیگرکی طرف انگلیاں اٹھاکران پرلعن طعن توہم سب کرتے ہیں لیکن کیاہم میں سے کسی نے اپنے بارے میں بھی کبھی ایک بارکچھ سوچا۔۔؟ہم اگرصحافی۔۔ڈاکٹر۔۔انجینئر۔۔کھلاڑی اورٹیچرنہیں توپھرہمیں ملک اورقوم کے ساتھ مذاق اورفراڈکرنے کی کیاضرورت ہے۔۔؟صحافی ،ڈاکٹراورٹیچرکاباربارہم اس لئے ذکرکررہے ہیں کہ ان تینوں طبقوں کارتبہ اورمقام سب سے الگ اوربلندہے ۔

۔ڈاکٹرکسی کی زندگی بچاتاہے اوراللہ تعالیٰ قرآن پاک میں خودفرماتے ہیں کہ جس نے ایک انسان کوبچایاگویااس نے پوری انسانیت کوبچالیا۔۔اسی طرح صحافت بھی ایک قسم کی عبادت اورجہادصرف اس لئے ہے کہ ایک صحافی جان ہتھیلی پررکھ کرکسی ظالم کاہاتھ روکنے کاسبب اورکسی مظلوم کی دادرسی کاباعث بنتے ہیں ۔۔اسی طرح ایک استادکوروحانی باپ کادرجہ اس لئے دیاگیاہے کہ وہ طلبہ کی صحیح معنوں میں تعلیم وتربیت کرتے ہیں ۔

۔اب اگرڈاکٹرقصائی ۔۔صحافی درباری اورٹیچرکام چورکاروپ دھارلیں توپھرملک وقوم کی تعمیروترقی کیسے ہوگی ۔۔؟ ماناکہ اس ملک کوسب سے زیادہ نقصان حکمرانوں نے ہی پہنچایالیکن آخرسوچنے کی بات ہے۔۔ ان چور۔۔ڈاکواورلٹیرے حکمرانوں کوقدم قدم پراپنے مضبوط کندھے کس نے فراہم کئے ۔۔؟بحیثیت قوم ہم آج ہی اگر ان چور۔ڈاکواورلٹیرے حکمرانوں سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں توکوئی مشکل نہیں کہ ان سے ہماری جان نہ چھوٹے۔

۔ہماری ہی نوسربازیوں ۔۔دھوکہ دہی اورفراڈکے باعث ہی ظالم حکمران آگے بڑھتے ہیں ۔۔جاہل ہوکرجب ہم صحافی ۔۔مداری ہوکرجب ہم ڈاکٹراوران پڑھ ہوکرجب ہم خودکوٹیچرکہلائیں گے توپھرہم ظالم حکمرانوں کے ہاتھ روکیں گے یااپنے گناہوں پرپردہ ڈالیں گے۔۔؟جوبندہ خودٹھیک نہیں ہوگاوہ کسی دوسرے کوکیاٹھیک کرے گا۔۔؟جھوٹ ۔۔فریب ۔۔دھوکہ اورمنافقت نے ہمیں غلام بنادیاہے ۔

۔اپنے وقتی مفادکے لئے آج ہم قوم کادائمی مفاداورمستقبل داؤپرلگارہے ہیں ۔۔جس کوصحافی ۔۔ڈاکٹر۔۔ٹیچر۔۔انجینئراورکھلاڑی بننے کاشوق ہے وہ اپناشوق ایک نہیں ہزاربارضرورپوراکریں لیکن خداراکیمرے اورکارڈکے بل بوتے پرصحافی۔۔مٹی کے گولوں پرڈاکٹراورسیاسی اثرورسوخ پرٹیچراورپیسوں کے ذریعے حکمران وسیاستدان بننے کایہ رواج اس ملک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں ۔

ہمارے ان سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے ہی یہ ملک اب تک بہت بار تماشابن چکا۔ اب مزیداس ملک اورقوم کوتماشاہرگزنہ بنائیں ۔۔یہ زندگی جعلی صحافی۔۔عطائی ڈاکٹر۔۔کام چورٹیچراورلٹیرے حکمران وسیاستدان بننے کے علاوہ بھی گزرجائے گی ۔۔رزق۔۔عزت ۔۔دولت اورشہرت یہ جھوٹ ۔۔فریب اوردھوکے میں نہیں ۔۔جولوگ جعلی طورپرصحافی۔۔ڈاکٹر۔۔ٹیچراورانجینئرنہ بنے ان کی زندگی بھی اچھی طریقے سے گزرجاتی ہے ۔

۔تم اگرکسی کویہ نہ کہوکہ ،،ہاں میں بھی صحافی ،ڈاکٹریاٹیچرہوں ،،تووہ پھربھی آپ کی عزت اوردل سے احترام کریں گے کیونکہ عزت اورشہرت جعلی صحافی ،عطائی ڈاکٹریانااہل ٹیچربننے میں نہیں بلکہ خودداری۔۔ایمانداری اورخداخوفی میں ہے ۔جعلی صحافی ۔۔ڈاکٹراورٹیچربن کراس جہاں میں تم خودتماشابنویانہ لیکن اس جہاں میں ایک نہ ایک دن ضروررسوائی تمہارامقدربنے گی ۔

کیونکہ جھوٹ۔۔فریب۔۔منافقت اوردھوکہ کرنے والے لوگ میرے رب کوپسندنہیں ۔ اسی وجہ سے جولوگ بھی جھوٹ۔۔فریب۔۔منافقت اوردھوکے کی چادراوڑھ کرلوگوں کوگمراہ کرتے ہیں وہ پھردونوں جہانوں میں ذلیل وخوارہوتے ہیں ۔اس لئے مفت میں کچھ بننے کے چکروں میں ہمیں اپنی دنیااورآخرت ہرگزتباہ نہیں کرنی چاہئے۔اللہ ہم سب کوہدایت دے۔۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :