سرعام پھانسی،درندوں کا واحد علاج

بدھ 12 فروری 2020

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

جگہ وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو۔دردسے وہی تڑپتے اورکراہتے ہیں جن کوزخم لگے ہوتے ہیں۔گرگٹ کی طرح رنگ ،پارٹیاں اورمزاج بدلنے والوں کوکیاپتہ کہ دکھ،درداورزخم کیاہوتے ہیں؟معصوم بچوں اوربچیوں کواپنی ہوس کانشانہ بنانے والے انسانی درندوں کوسرعام پھانسی دینایہ ظلم ہے یاانصاف۔۔؟
اس بارے میں کسی نواب، رئیس ،وڈیرے اورکسی چوہدری سے فتویٰ لینے کی بجائے ان بدقسمت ماں باپ کے دل چیرکرانہیں ایک لمحے کے لئے اندرسے دیکھناچاہےئے۔

غم ورنج اوردردوتکلیف کے مارے غریبوں کے اداس چہروں پرغم والم کی ہزاروں ولاکھوں لکیریں توان نوابوں،خانوں،چوہدریوں،رئیسوں اوروڈیروں کونظرنہیں آرہی لیکن شائدکہ کسی غریب کے چیرے ہوئے دل پرغم والم ،دردوتکلیف کے جمنے والے خون کے کسی لوتھڑے پرپھر ان میں سے کسی کی نظرپڑہی جائے۔

(جاری ہے)

ایک طویل عرصے سے کلمہ طیبہ کے نام پربننے والے اس ملک میں انسانی درندے اوربھیڑےئے اپنے بلوں سے نکل کرغریبوں کے معصوم اورپھول جیسے بچے وبچیوں کاگوشت نوچ نوچ کرانہیں موت کی نیندسلارہے ہیں مگرہمارے حکمرانوں میں سے کسی کواس کی کوئی پرواہ نہیں ۔

کسی معصوم بچے کی طرف پنجہ اٹھاتے اوربڑھاتے ہوئے جنگلی درندے بھی ہزاربارسوچتے ہوں گے مگرافسوس یہ انسانی درندے سوچناکیا۔۔؟
یہ بدبخت توخدااورآخرت کے انجام سے بھی ذرہ نہیں ڈرتے۔انسانیت کالبادہ اوڑھے ہوئے ان انسان نمادرندوں نے وحشی جانوروں کوبھی شرمادیاہے۔ان ظالموں کے ہاتھوں آج یہ ملک بچوں کاایک قبرستان بناہواہے جہاں کوئی زینب محفوظ ہے اورنہ ہی کوئی فرشتہ۔

ان درندوں کی وجہ سے درجنوں نہیں سینکڑوں اورہزاروں بدقسمت مائیں اپنی پھول جیسی بچیوں اوربچوں کی تشددزدہ اورخون آلودنعشیں ولاشیں اٹھائے ان معصوم بچوں کے غم میں ہمیشہ کے لئے پاگل ہوچکی ہیں۔ان بچوں کی یادمیں آنسوبہاتے بہاتے آنکھیں بھی مکمل خشک اورضبط وصبرکی تمام زنجیریں بھی اب ٹوٹ چکی ہیں۔جس گھرسے لومڑی اورگیڈرکوئی مرغی اٹھائے۔

ایک مرغی کی یادمیں وہاں کے مکینوں کی بھی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں پھرجس آنگن سے مرغی نہیں کسی ذینب اورفرشتہ کودن دیہاڑے کوئی انسانی لومڑی یاگیڈراٹھاکرلے جائے وہاں کے مکینوں پرپھرکیاگزرتی ہوگی؟بچے توسب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔اس ملک کی گلیوں اورمحلوں سے جوانسانی لومڑیاں اورگیڈرذینب،اقراء،صائمہ،کلثوم اورحاجرہ سمیت جوسینکڑوں اورہزاروں پھول جیسی فرشتوں کواٹھاکرلے گئے ہیں ان کی بدقسمت مائیں اب کیسے جی رہی ہوں گی۔

۔؟ان انسانی درندوں کی درندگی اورہوس کی بھینٹ چڑھنے والی ان معصوم کلیوں کے نام بھی سن کردل پھٹنے لگتاہے پھران ماں باپ جنہوں نے ان پھولوں کواپنے ہاتھوں میں پوساپالا۔جن کے کل کے لئے انہوں نے اپناآج قربان کیا۔جن کی ایک ایک آہ پروہ رات بھرآہ آہ کرتے رہے۔وہ بدقسمت والدین اپنے ان معصوم اورپھول جیسے بچوں کوکیسے بھول پائیں گے۔۔؟جن کے بچے وی آئی پی پروٹوکول میں پل رہے ہوں ان کوایسے وحشی درندوں کی سزااورانجام سے کیاغرض۔

۔؟ایسے درندوں کی سرعام پھانسی کے بارے میں توان غریبوں سے پوچھاجائے جن کے معصوم اورپھول جیسے بچے آج بھی ان درندوں کے نشانے پرہے۔
ہمارے باباجی کہتے تھے کہ پترکھیت،چمن اورباغ کوبچانے کے لئے ایک نہ ایک لومڑی اورگیڈرکوالٹالٹکاناپڑتاہے۔ ورنہ اس کے بغیرکوئی باغ،کھیت اورچمن پھرتباہی سے نہیں بچ سکے گا۔ سرعام پھانسی یہ کوئی بلانہیں بلکہ یہ ملک،قوم اورمعاشرے کواس طرح کے درندوں اورسوروں سے بچانے کے لئے مجرب دواء ضرور ہے ۔

ہم جس دین کے نام لیواہیں ۔اس دین کی تعلیمات بھی یہی ہے کہ مجرم جتنابڑااورجرم جتنابھاری ہوسزابھی پھراتنی ہی سخت دی جائے۔ چوری پرچورکے ہاتھ کاٹنے اورزناپرکوڑے مارنے اورسنگسارکرنے کی سزائیں صرف اس لئے مقررکی گئی ہیں کہ مجرم کونہ صرف دنیامیں اس کے کئے کی سزاملے بلکہ دیگرلوگ اس سے عبرت بھی حاصل کریں۔سعودی عرب میں سرعام پھانسی کاقانون ہے اس لئے وہاں لوگ قتل وغارت تودور کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے ہزاربارسوچتے ہیں۔

اس ملک میں اگرکسی ایک چورکے ہاتھ کاٹے جاتے توکیایہ ملک پھر آج اس طرح چوروں سے بھراہوتا۔۔؟یہاں اگرکسی ایک زانی اورشرابی کوکوڑے پڑتے یاانہیں سنگسارکیاجاتاتوکیااس ملک میں حواکی بیٹیوں کی عزتیں اورعصمتیں پھراس طرح نیلام ہوتیں؟کسی معصوم بچی اوربچے کوہوس کانشانہ بنانے والاکوئی ایک درندہ بھی اگراس ملک میں کسی چوک اورچوراہے پرالٹالٹک جاتاتونہ ہمیں قصورکی زینب کی خون آلوداورتشددزدہ نعش دیکھنے کی نوبت آتی اورنہ ہی اسلام آبادکی فرشتہ کی ہڈیاں گننے کاکوئی موقع ملتا۔

مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواء کی۔مگرافسوس یہاں توہم نے دعائیں بہت کیں مگردواء کے بارے میں ہم نے کبھی سوچابھی نہیں۔زینب،اقراء،صائمہ،کلثوم،حاجرہ اورفرشتہ جیسی معصوم کلیوں کی نعشوں اورلاشوں کوسامنے رکھ کرآہیں توہم نے بہت بھریں۔۔۔آنسوبھی ہم نے بہت بہائے۔سینہ کوبی اورآہ وزاری بھی ہم نے بہت کی لیکن درندوں کے آگے حصاراوردیوارہم نے کوئی نہیں بنائی۔

درندوں کی سرعام پھانسی یہ وہ حصاراوردیوارہے جس کے ذریعے ہم اس چمن اورباغ کوان درندوں سے بچاسکتے ہیں۔
ملک بھرمیں معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے حالیہ واقعات کودیکھ کرنہیں لگ رہاکہ اب اس ملک میں کوئی بچہ یاکوئی بچی ان درندوں سے محفوظ ہو۔اس وقت اس بحث میں پڑناکہ درندوں کوسرعام پھانسی دینا جائزاورقانونی ہے یانہیں ۔

ہمیں اپنے اوراس قوم کے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے سرعام پھانسی کے سلسلے کوشروع کرنے کی فوری حمایت کرنی چاہےئے۔ہم اگرجائزوناجائزاورقانونی نکات کودیکھتے رہیں توکل کوپھران درندوں سے اس ملک کاکوئی بھی بچہ محفوظ نہیں رہے گا۔کہتے ہیں بڑی آفت کے مقابلے میں چھوٹی برائی کوگلے لگاناچاہےئے ۔ہمارے خیال میں سرعام پھانسی کاعمل اول توہرگزناجائزنہیں ہوگاپھربھی اگریہ اقدام ناجائزاورغیرقانونی ہے بھی تب بھی ہمیں درندوں کی بڑی آفت،مصیبت اوربلاسے چھٹکارے کے لئے اس کوفوری طورپرقانون کادرجہ دے کراپناناچاہےئے تاکہ ان بے لگام درندوں اورانسانی بھیڑیوں سے اس گلشن اورچمن کوبچایاجاسکے۔

حکمران اورمنتخب نمائندے قوم کے محافظ ہوتے ہیں ۔قوم اورقوم کے معصوم بچوں کوانسانی درندوں اوربھیڑیوں سے بچاناہمارے ان حکمرانوں اورمنتخب ممبران پرفرض ہے۔عوام سے متعلق ایسے مسائل اورایشوپرسیاست چمکانے والے حکمرانوں ،سیاستدانوں اورمنتخب ممبران کوچلوبھرپانی میں ڈوب کرشرم سے مرناچاہےئے۔جولوگ غریب عوام سے ووٹ لیتے ہیں انہیں پھرقوم کے معصوم بچوں کے سروں اورزندگیوں پرسیاست کرنازیب نہیں دیتا۔

جولوگ ملک وقوم کے اس اہم مسئلے کوبھی سیاست کی نظرسے دیکھتے ہیں ان لوگوں کواپنے بچوں کوبھی ایک لمحے کے لئے سامنے رکھناچاہےئے۔آج اگرغریبوں کے یہ پھول درندوں کے ناپاک پاؤں تلے روندے اورمسلے جارہے ہیں توکل کویہی پھول سرعام پھانسی کی مخالفت کرنے والے ان سنگدل اورمفادپرست سیاستدانوں اورقوم کے نام نہاددانشوروں کے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لئے درندوں کی سرعام پھانسی کے اقدام کوایک نظرسے دیکھنے کی بجائے ہمیں اپنی دونوں آنکھیں کھول کرماضی ،حال اورمستقبل کودیکھناچاہےئے۔

ہم آج بھی کہتے ہیں کہ سال دو پہلے بھی اگر کسی درندے کوسرعام پھانسی دے کرکسی چوک اورچوراہے پرالٹالٹکادیاجاتاتونوبت قصورسے اسلام آباد،پشاوراورمردان تک کبھی نہ پہنچتی۔ اب بھی وقت ہے کہ کسی ایک درندے کوملک کے کسی چوک اورچوراہے پرالٹالٹکاکراسے دوسرے درندوں اورانسانی بھیڑیوں کے لئے نشان عبرت بنایاجائے ورنہ کل کوپھرہم چاہتے ہوئے بھی اپنے معصوم اورپھول جیسے بچوں کوان درندوں سے نہیں بچاسکیں گے۔اس لئے سرعام پھانسی ہی ان درندوں کاواحدعلاج ہے اوریہ علاج کل نہیں آج ہی ہوناچاہےئے تاکہ ہمارے بچے ان درندوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ رہ سکیں ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :