طارق محمود ملک

جمعرات 24 دسمبر 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

"آج تم نے میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے،" سلیم کے ابا نے سلیم سے منہ پھیرتے ہوئے کہا۔
سلیم ہمارے بچپن کا دوست ہے۔ خدا ترسی کسے کہتے ہیں، یہ  ہم نے سلیم ہی سے سیکھا۔ ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتا۔ اپنی ذات کے لیے کبھی سلیم کو پریشان نہ دیکھا تھا۔ گذشتہ شب اچانک سے جب گھرآیا تو اُس کی پریشانی دیکھ کر ہم خود بھی پریشان ہو گئے۔ جس شخص کو ہمیشہ ہشاش بشاش دیکھا ہو، اُس کی اُداسی زمانے بھر کو اُداس کر دیتی ہے۔

پھول مرجھا جاتے ہیں۔ فضا سوگوار ہو جاتی ہے۔ دل بُجھ جاتا ہے۔
اندر بلایا، چائے بنائی، اور پاس بیٹھ کر گہری سوچ میں گُم سلیم سے استفسار کیا کہ کیوں پریشان ہے۔ سلیم ہمارے سامنے ہو کر بھی ہمارے سامنے نہ تھا۔نظریں اُٹھائے بغیر چائے   کے کپ کو زبردستی ہونٹوں سے  لگاتے ہوئے گویا ہوا، "آج اندر کا بُت ٹوٹ گیا ہے۔

(جاری ہے)

"
اندر کا بُت؟ کیا ہوا ہے؟ سب خیریت ہے؟ ہم نے ایک ہی سانس میں کئی سوال داغ دیے۔

نظر اُٹھا کر بولا، آج ابا نے اندر کا بُت توڑ دیا ہے۔ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آج تک کی ساری نیکیاں ضائع ہیں۔ آج تک کے سارے اعمال ہوا ہو گئے۔ آج تک کی ساری زندگی بدبودار محسوس ہو رہی ہے۔ اور پشیمانی میں خدا کا سامنا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
اُس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر ہم اور بھی پریشان ہوئے۔ کہا، میاں صاف صاف بتاؤ، ہوا کیا ہے؟ سلیم نے بتایا کہ ہمسائے میں کوئی شخص کورونا کے باعث زندگی ہا ر گیا۔

گھر کا واحد سہارا جانے سے اُس گھر کی بنیادیں تو  کمزور ہونی ہی تھیں، مگر سلیم کو محسوس ہوا کہ تعزیت کے لیے آنے والوں کا بوجھ اس سوگوار کے گھر کی دیواریں  بھی ہلا کر رکھ دے گا۔  سلیم نے اپنی کچھ مہینوں کی جمع پونجی چپ چاپ بغیر کسی کو بتائے اور بغیر اپنے گھر کا سوچے، اُس گھر کے نئے کفیل کو دے کر کہا کہ پریشان نہ ہو، اور پیسے بھی چاہیے ہوں تو بلا جھجھک مانگ لے۔


سلیم کہنے لگا، دل میں اپنے گھر کی فکر سے زیادہ اُس گھر والوں کی مدد کا اطمینان اور سکون تھا۔ مگر شام جب ابا نے اچانک  کچھ پیسے مانگے تو میرے پاس ابا کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نےجب ابا کو بتایا کہ پیسے کہاں گئے، انہوں نے کہا، " آج تم نے میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔" ابا کے الفاظ نشتر کی طرح سینے میں اُتر گئے۔سلیم نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بتایا ، میں نے ابا سے عرض کی، ایسا کیوں کہہ رہے ہیں، میں نے تو مصیبت زدہ کی مدد کی ہے، کوئی جوایا شراب میں پیسے نہیں اُڑائے۔


چچا کا اعتراض بے معنی تھا۔ انہیں تو بیٹے کی تربیت پر خوش ہونا چاہیے تھا۔ سلیم بولا، ابا نے جھڑک کر پوچھا، کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ کئی روز سے اُن کے حالات ابتر ہیں؟ ہم پیٹ بھر کر کھاتے رہے، وہ بھوکے رہے۔ زندہ کی مدد کے لیے تیرے پاس ٹکا نہیں تھا، مُردے کی قبر کو مزار بنانے چل نکلا ہے۔ اور خوش کس بات پر ہو رہا ہے؟ تیرے باپ کی جاگیر تو نہیں تھی جو تُو نے کسی کو دے کر احسان کیا ہے۔

اللہ کا دیا مال تھا، اللہ کے بندے کو دے دیا۔ شرم نہیں آئی تجھے کہ امانت لوٹانے میں تُو نے کتنی دیر کر دی؟ مردہ جسموں کی قبروں پر احسان کرتا ہے، زندہ روحوں کے بے سدھ چلتے پھرتے مزاروں کو کیوں نہیں کھلاتا؟
سلیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کپ رکھ کر، آنسو پونچھتے ہوئے بولا، آج سمجھ آئی ہے کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو معلوم نہ پڑے کا کیا مطلب ہے۔

کعبے کے تین سو ساٹھ بُت توڑنے اتنے مشکل نہیں جتنا اندر کا یہ بت توڑنا مشکل ہے، جو ہر اچھے کام پر خوش ہو جاتا ہے، نیکی کا احساس دلاتا ہے، سینہ چوڑا کر دیتا ہے۔
سلیم کی باتوں میں بلا کی صداقت تھی۔ ہمارے استادِ محترم، پروفیسرطارق محمود ملک صاحب کا گذشتہ دنوں انتقال ہوا۔ جامعہ میں اتنا ہشاش آدمی نہیں دیکھا تھا۔ ہر وقت ہنستے مسکراتے ، چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔

ٹی وی پر رپورٹر بھی تھے۔ کیا زبردست آواز اور الفاز کا ہنر جانتے تھے۔  کبھی پریشانی کا ایک شکن بھی ماتھے پر نہ دیکھا تھا۔ جب چلے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ سادہ سا آدمی تو بہت ہی بڑا صحافی ہے۔ صحافی برادری کے دیو قامت صحافیوں نے ٹویٹر پر، اپنے ٹی وی پروگراموں پر، اور کالموں میں طارق صاحب کے قصیدوں کے انبار لگا دیے۔ ساتھ ہی شکوے بھی کر دیے کہ اب طارق صاحب کی ابا جی طرز کی شخصیت کے گھر کا خیال کون رکھے گا؟ کسی نے حکومت کو شرم دلائی، کسی نے اُن اداروں کو جہاں سر طارق نے اپنی جوانی قربان کی۔

  حیف، سب کو طارق محمود ملک کے مصائب اُن کے چلے جانے کے بعد یاد آئے۔ طارق صاحب کے خصائل کا ذکر کرنے کے بجائے سب نے اپنے ذاتی تعلق اور اپنے ذاتی دُکھ کی نمائش کی۔ ہر کوئی ثابت کرنے چل پڑا کہ طارق صاحب کا جانا سب سے زیادہ اُسی کو نقصان دے گیا ہے۔

طارق صاحب کا جانا واقعی ایک خلا چھوڑ گیا ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ مصائب کے باوجود ہمیشہ ہشاش رہنے والا یہ انسان کئی زندگیوں کے لیے فرشتہ تھا۔ اور فرشتوں کے لیے بھیک نہیں مانگی جاتی۔ طارق صاحب بہر حال ایک انسان تھے، جس میں خامیاں بھی موجود رہی ہوں گی، مگر اُن کے بچوں سے مل کر محسوس ہوا کہ طارق صاحب مصائب سے گھبرایا نہیں کرتے تھے۔ مصائب پر شکوہ کے بجائے مصائب سے دوستی رکھتے تھے۔ شاید محسوس کرتے تھے کہ مصائب انہیں انسانیت سے دور ہونے سے بچا رہے ہیں۔

بے شمار طلباء کو نہ صرف  تعلیم میں، نوکری اور پیشہ ورانہ خدمات میں بھی مدد فراہم کرتے رہے۔ مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے، کبھی کسی سے بدلہ نہیں چاہا۔
رزق اور عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم صحافیوں کو حکومت یا ادارے کچھ بھی دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ہمارا کسی سے بھی طارق صاحب کے گھر کا وظیفہ لگانے کا مطالبہ نہیں ہے۔ وہ ایک خود دار آدمی تھے۔

سو اگر زندگی میں انہوں نے کسی سے خیرات نہیں لی، تو اُن کی قبر پر خیرات کا بوجھ ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں۔  جنہیں زندہ طارق صاحب کا خیال نہیں آیا، وہ اب بھی اپنے جذبات اپنے پاس رکھیں۔ ورنہ معاشرے کا سر سلیم کے ابا کے سر کی طرح شرم سے جھکا رہے گا۔ استاد کا چلا جانا یتیمی کا احساس جوان کر جاتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارے استادِ محترم کو بلند درجات عطا فرمائے۔ اور جو شمع ہمارے دلوں میں وہ روشن کر گئے ہیں، اُس شمع کو تا قیامت روشن رکھے اور سینہ بسینہ منتقل کرتا رہے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :