خط بنام عمران خان

منگل 28 ستمبر 2021

Usama Khalid

اُسامہ خالد

دنیا کے خوبصورت ترین اور بہترین کُتوں کے مالک، ہمارے ہینڈسم اور ایماندار وزیر اعظم جناب محترم عمران خان نیازی صاحب کی خدمت میں اس بے وجہ اور بے شعور عوام کے ایک بے نام باسی کا سلام بصد احترام عرض ہے۔ جنابِ والا غالب کہہ گئے کہ خط آدھی ملاقات ہے۔ مگر ٹویٹر پر آپ کے برجستہ ملفوظات کے باعث بندہءِ نا چیز کو لگتا ہے کہ اب ملاقات بذریعہ خط آپ کیحکومت کی طرح آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔

ورنہ جناب کی ملفوظات سے کہیں تو آگہی کا اندیشہ ضرور ٹپکتا۔
سرکار، جان کی امان پا کر عرض کرنے کی استدعا ضرور کرتا مگر اب تو جان بھی آدھی سے کم رہ گئی ہے، سو اُس کو بھی امان نہ ملے تو کوئی حرج نہیں۔ لہٰذا بغیر جان کی امان پائے عرض ہے، عرض بھی کیا، مظلومانہ سوال ہے کہ آپ کی شہرہ آفاق عالمی تقاریر اور بین الاقوامی جریدوں کو انٹرویو کیا ہماری آنکھیں اشکبار کرنے کے لیے کم تھے جو آپ نے پٹرول کا بم بھی گرا دیا؟ حضورِ والا، کیا آپ کی دردمندانہ اور شاعرانہ تقاریر ہمیں رُلانے کے لیے نا کافی محسوس ہونے لگی تھیں کہ متواتر مہنگائی کے ذریعے ہماری چیخیں نکلوائی جا رہی ہیں؟ کہیں طوفانِ بدتمیزی میں ملبوس مہنگائی کی سونامی احساس پروگرام کے مستحقین میں اضافے کے لیے تو نہیں؟ حضور، آپ تو کسی نہ کسی طرح اپنے کُتوں کی خوراک کا بندوبست کر لیتے ہوں گے، ہم اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں؟
سنا ہے آپ کو ٹیم اچھی نہیں ملی۔

(جاری ہے)

جناب، کون ہے جو آپ کو صحیح ٹیم منتخب نہیں کرنے دے رہا؟ اور جن کے کندھوں پر بیٹھکر آپ حکومت میں آئے ہیں، (یعنی کہ نوجوانانِ پاکستان) جناب آپ کی حکومت نے اُن کی تربیت کے لیے کیا کار ہائے نادر سرانجام دیے؟ تعلیمی ادارے بند اور بغیر امتحان ترقی؟ سبحان اللہ !
چونکہ آپ تک ملکی معاملات صرف اُن کے ذریعے پہنچ رہے ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں، تو اس بے وزن اور بے بحرخط کے ذریعے حالات آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔

حضور، بشیر مرتے جا رہے ہیں اور مشیر بھڑکتے جا رہے ہیں۔ مروانوں کا دور دورہ ہے اور یزیدوں کی شورش جاری ہے۔ افغانستان سے امریکہ کھسک گیا ہے مگر امریکیت پاکستان کے حوالے کر گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان اپنے مضمون کے علاوہ ہر شے پر درس دے رہے ہیں۔ اخلاقیات کوٹھوں پر بیچی جا رہی ہیں اور منٹو ہر گلی میں پیدا ہونے لگے ہیں۔
ٹی وی پر ایک خاتون نے حجاب پہن کر واویلا کیا کہ حجاب والی خواتین بھی نارمل خواتین ہوتی ہیں، مگر بریک کے بعد ہم نارملطریقے سے یعنی حجاب اُتار کر پروگرام کریں گے۔

ماشاءاللہ۔ جنابِ والا، اس قدر ذہنی پسماندگی پہلے تو کبھی نہیں تھی۔ آپ میڈیاکو فوج، عدلیہ، اور اب حکومت کے خلاف بولنے پر تو کافر اور غدار قرار دے رہے ہیں، پر مذہب کا جنازہ چوک میں رکھ کر ناچنے پرکوئی شکن نہیں، حیرت ہے!
جہاں آپ کا کریڈٹ ہے، اُس پر آپ کا شکریہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔ آپ نے یقین دلا دیا ہے، ثابت کر دیا ہے، جلی حروف میں رقم کر دیا ہے کہ مدینہ پوری دنیا میں پوری طاقت لگانے کے باوجود کہیں اور وجود نہیں پا سکتا ہے۔

آپ کا شکریہ کہ آپ نےہماری خوش فہمی دور فرما دی۔ اب ہمیں یقین آ گیا ہے کہ مدینہ بس ایک ہی ہے اور جب تک ہم کروڑوں روپے کا غبن نہیں کر لیں یا کرنے دیں، ہم وہاں ننگے پاؤں قدم نہیں رکھ سکتے۔ وہاں کے دروازے تو فقط حکمرانوں کے لیے ہیں۔ جنابِ والا، آپ کی مہربانیسے ہمیں ادراک ہوا کہ جھوٹے وصل کی ایک رات سے ہزار درجے بہتر ہے ہزار راتوں کا ہجر۔

یعنی ایک شخص دکھاوے کے لیےنا حق مال کے ساتھ مکہ مدینہ کے چکر لگائے، اس سے بہتر ہے کہ سچے دل سے وصل کے لیے حلال کمائی کے ساتھ تڑپتا رہے۔
مزید عرض ہے کہ وزراء بتا رہے ہیں کہ ادارے کا نام لے کر کسی شخصیت پر تنقید کو شخصیت پر تنقید ہی سے تعبیر کیا جائے، پوراادارہ گندا نہ کہا جائے۔ گذارش ہے کہ ابو بچاؤ مہم میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس لیے سبقت لے جا رہے ہیں کہ وہ کم سے کم اپنے حقیقی اور سگے ابو کو بچا رہے ہیں، حکومتی وزراء کی روش اس معاملے میں کسی قدر کمزوری کا شکار رہ گئی ہے۔


بھلا ہو قبیح ڈراموں کی بھرمار میں چیدہ چیدہ فوجی تفکر کے ڈراموں کا، نوجوان نسل میں کم سے کم 6 ستمبر کے جنگی ولولے اور شناسائی جاگنے لگے ہیں۔ مگر افسوس، 11 ستمبر کو کیلنڈر سے مکمل خائف کیا جانے لگا ہے۔ جناح اور اقبال کے مزاروں کے باہرتازہ دم دستے اب باہر سے اندر جانے والوں کو روکتے محسوس نہیں ہوتے۔ لگتا ہے کہ اندر سے کوئی روح باہر آنے سے روکی جارہی ہے۔

آپ نے بھی تعلیم اور سلیبس کا فقط مقصد نوکری بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ باہر کی دنیا نے سائنس کو تعلیم کاحصہ جبکہ سماجیات اور عمرانیات کو تعلیم کا محور بنا دیا ہے۔ اور عمران خان کی حکومت میں عمرانیات کا نام بھی لینا جرم بنتا جا رہاہے۔
اگر ناچیز کی کوئی بات تلخ محسوس ہوئی ہے تو مبارک ہو جناب، ابھی ضمیر زندہ ہے۔ کوشش کیجئے کہ عوام کی طرف سے ملنے والاآئندہ خط خوشحالی کا عکاس بنے، یا کم سے کم امید کا ڈھول پیٹے، وگرنہ اب مقدر میں خزائیں ہی خزائیں ہیں۔
والسلام
ایک ادھ مرا پاکستانی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :