بچوں کی تربیت کیسے کریں

ہفتہ 25 دسمبر 2021

Usama Khalid

اُسامہ خالد

جب آپ بولتے ہیں، زیادہ سے زیادہ آپ وہی بول سکتے ہیں جو آپ جانتے ہیں۔ مگر جب آپ سنتے ہیں، عین ممکن ہے آپ کچھ ایسا سُن لیں جو پہلے آپ کے علم میں نہ تھا۔ یوں آپ کے علم میں، فہم میں، اور ممکنہ طور پر فراست میں فراخی آ جاتی ہے۔ اور یہی بچوں کی تربیت کا کلیہ ہے ۔
والدین ہمیشہ چاہتے ہیں، اُن کا بچہ انجنیئر، ڈاکٹر، پائلٹ بنے۔

اُس کے مستقبل کی فکر کرتے ہیں۔ مستقبل کے لیے بے پناہ محنت کرتے ہیں، جان اور مال لُٹاتے ہیں، بچے کو کامیاب ترین دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر مستقبل کی فکر میں بھول جاتے ہیں کہ جس بچے نے کل انجنئیر، ڈاکٹر یا پائلٹ بننا ہے، وہ آج کیا بنا ہوا ہے، اُس کا حال کیسا ہے، اُس کی شخصیت کیسی ہے؟ اپنے مستقبل کے کامیاب بچے کے تصور میں اس قدر مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں کہ بچے کی موجودہ پریشانیوں سے ناآشنا ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


والدین اور اساتذہ بچے پر اپنا علم تو بہاتے ہیں، مگر بچے کو سننے کے فن سے بے پروا رہ جاتے ہیں۔ کلاس روم میں جانے والا استاد حتی المقدور زور لگاتا ہے کہ اپنا آفاقی تجربہ بچے پر اُنڈیل کر بچے کو اپنے سحر میں جکڑ لے۔ بچہ لیکچر کے بعد کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ایسا استاد نہیں دیکھا کبھی۔ مگر علم جھاڑنے کے چکر میں فر فر بولنے والا استاد اپنی سماعت سے بچوں کو محروم کر دیتا ہے۔

یوں بچے کی ذاتی شخصیت اور شخصی ضرورت دب کر رہ جاتے ہیں۔ بچہ استاد سے امپریس تو ہو جاتا ہے، تعریفی جملے بھی کس دیتا ہے، مگر نہ استاد بچے کا اور نہ بچہ استاد کا ہم نوا بن پاتا ہے۔
اساتذہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ کمرہءِجماعت میں مرکزِترکیب و توجہ و تعلیم بچہ ہے، استاد نہیں۔ دائرہ کھینچنے کے لیے مرکز کا دھیان نہ رکھا جائے تو دائرہ کبھی بھی بے ہنگم لکیروں سے بڑھ کر کچھ نہیں بن پاتا۔

یہ کام استاد کا نہیں کہ خود کو توجہ کا مرکز بنائے اور نابلد بچوں کو ثابت کرے کہ وہ ایک نا قابلِ تسخیر اسکالر ہے۔ استاد کا کام بچوں کو مرکزِ جماعت اور مرکزِسبق بنانا ہے۔ جب بچے کو اہمیت ملے، سماعت ملے، کل کا ڈاکٹر سمجھنے کے بجائے آج کا معصوم اور سہما ہوا بچہ سمجھ کر اُس کی آبیاری کی جائے، استاد توجہ کا مرکز خود بخود بن جاتا ہے۔
قرآن کا سطحی ترجمہ پڑھنے کے بجائے اُس سے دل جوڑیے، اللہ کو سنیے، وہ والضحٰی میں محبوب صل اللہ علیہ و الہ و بارک وسلم کو مشورہ دے رہا ہے کہ آنے والوں کو خوب سماعتوں سے نوازیے۔

ان کو میری سنانے سے زیادہ ان کی سنیے۔ پھر وہ جگہ جگہ تعریفیں کرتا ہے کہ میرا محبوب مومنوں کے ساتھ کیسی شفقت فرماتا ہے، اُن پر حریص ہے۔ پھر سنت کو دیکھیے، لوگ فتوے مانگنے آتے ہیں یا دلجوئی کے لیے! دیکھیے تو سہی کہ خود اللہ نے قرآن کے ذریعے حکم جاری کیا تو کِیا، سرکار صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے کبھی کسی کو در سے نہیں اُٹھایا کہ جب تک جی چاہے بیٹھو اور اپنے سوز سناتے رہو۔


بڑا ظلم ہوا کہ ہم نے صرف باب العلم کے اقوال نقل کیے۔ ہم نے اُن کی سماعتوں کا ذکر ہی نہیں چھیڑا۔ کس بردباری سے تلامذہ کو سنتے، دستِ شفقت رکھتے، اور خوب تشفی کے بعد وعظ فرماتے۔
اچھا اُستاد بولتا کم اور سنتا زیادہ ہے۔ خوب سُن لیا ہو تو خوب سمجھ آ جاتی ہے کہ مسئلے کی جڑ کہاں ہے۔ جڑ پکڑ لیں تو مسئلے کا حل بھی سہل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے، جب آپ بولتے ہیں، زیادہ سے زیادہ آپ وہی بول سکتے ہیں جو آپ جانتے ہیں۔ مگر جب آپ سنتے ہیں، عین ممکن ہے آپ کچھ ایسا سُن لیں جو پہلے آپ کے علم میں نہ تھا۔ یوں آپ کے علم میں، فہم میں، اور ممکنہ طور پر فراست میں فراخی آ جاتی ہے۔ اور یہی بچوں کی تربیت کا کلیہ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :