غدار کون؟

بدھ 6 جنوری 2021

Usama Khalid

اُسامہ خالد

موسیٰؑ ایک روز کسی پہاڑ کے قریب سے گزر رہے تھے۔ دیکھا کوئی فقیر دور درخت کے نیچے بیٹھا بڑے انہماک سے اپنے رب کی بڑائی بیان کر رہا ہے۔ ایسے جذباتی ہو رہا ہے جیسے خدا سامنے ہی کھڑا سُن رہا ہو۔ موسیٰؑ بہت خوش ہوئے۔ ہم میں سے اکثریت خدا سے بات کرتی ہے، مگر خدا سنتا ہے، یہ یقین بہت کم لوگوں کو ہے۔
موسیٰؑ ہی کے زمانے میں جب باش کی دعا کے لیے عوام کو کھلے میدان میں اکٹھے ہونے کی دعوت دی گئی، فقط ایک بچہ تھا کہ سر ڈھانپنے کا سامان ساتھ لایا تھا۔


خیر، موسیٰؑ بوڑھے فقیر کے پاس گئے۔ ابھی سلام نہ لیا تھا کہ اُس شخص کی گفتگو کان میں پڑی۔ یکایک رنگ بدل گیا۔ جلال آ گیا۔ سختی سے ڈانٹنے لگے کہ اے بدبخت، تُو جانتا نہیں تُو کس سے بات کر ہا ہے؟ کوئی خدا سے یوں بھی بات کرتا ہے؟ خدا کوئی بچہ ہے کہ جسے تُو پاس بٹھا کر اُس کے گال چومے، پاؤں دھوئے، بال بنائے، تیار کرے۔

(جاری ہے)

اپنے ریوڑ سے زیادہ اُس کو دُلار کرے۔

تُو ہے ہی کیا خدا کے سامنے؟ جانتا ہے کس قدر گستاخی کی باتیں کر رہا ہے؟ بجائے خدا کا قرب حاصل کرنے کے، اُس کے عذاب کا حقدار بن رہا ہے۔
اور اس سے پہلے کہ موسیٰؑ اپنا اعصاء گھما کر اُس شخص کا سر پھوڑ دیتے، وہ فورا گڑگڑانے لگا۔ معافیاں مانگنے لگا۔ بولا، اے کلیم اللہ، آپ تو اللہ سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ آدابِ عبادت سے خوب واقف ہیں۔ مجھ جاہل کو کیا خبر خدا سے بات کیسے کرنی ہے۔

آپ کرم فرمائیے، مجھے دعا کے آداب سکھلا دیجیے، تا کہ میں اپنے رب کے غذب کے بجائے اپنے رب کا قرب حاصل کر پاؤں۔
موسیٰؑ کی آواز میں نرمی آ گئی۔ اعصاء کو واپس زمین پر ٹکایا، خبردار کرتے ہوئے، بوڑھے شخص کو دعائیں سکھلائیں۔ اور اپنی راہ لیے چل دیے۔
خدا کا عشق بھی کمال ہے۔ روشنی کا ایسا لباس ہے کہ سطح پر سفید نظر آتا ہے، اندر جھانکیے تو دھنک کے سات رنگ نظر آتے ہیں۔

ہر رنگ کا اپنا امتزاج ہے۔ ہر رنگ یکتا ہے، مگر کوئی رنگ جدا بھی نہیں۔  اور قرب مزید حاصل ہونے لگے تو معلوم پڑتا ہے ان سات رنگوں کے علاوہ بھی بے شمار رنگ ہیں، جنہیں انسانی آنکھ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔  نہیں راضی ہوتا تو تمام عمر کی عبادت پر بھی راضی نہیں ہوتا ہے۔ اور راضی ہوتا ہے تو کُتے کو پانی پلانے پر جسم فروش طوائف سے بھی ایسے راضی ہو جاتا ہے کہ ہمارے زمانے کے حاجی نمازی بھی اُس کے جوتے کی خاک سے کمتر ہو جائیں۔


موسیٰؑ ابھی گھر بھی نہ پہنچے تھے، خدا کی آواز آ گئی۔ "موسیٰ، تُو نے میرے محبوب بندے کا دل دُکھا دیا۔ " میرے مالک، وہ تو تیری شان میں گستاخیاں بک رہا تھا۔ " موسیٰ، جو تیرے کانوں کو گستاخیاں لگ رہی تھیں، وہ  مجھے اُن دعاؤں سے زیادہ پسند تھیں جو تُو اُسے سکھا آیا ہے۔ واپس جا، میرے بندے کا حال دیکھ۔"
موسیٰؑ پلٹ گئے۔ اعصاء ہاتھ میں لیے، بغیر رُکے اُسی راہ پر گئے، اور اُس شخص کو دُور سے دیکھا۔

ابھی بھی وہ دعاؤں میں مصروف تھا۔ ہکلاتا، لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ، بمشکل ذہن پر زور دے دے کر وہ دعائیں یاد کررہا تھا، جو موسیٰؑ سکھا آئے تھے۔ اب اُس کے دل میں خدا کی محبت کی جگہ خدا کے خوف نے لے لی تھی۔ دعا ابھی بھی مانگ رہا تھا، مگر وہ اپناپن، وہ یقین کہ رب سُن رہا ہے، وہ جذبات جو نوبیاہتہ دوشیزہ کے ہوا کرتے ہیں، وہ غائب تھے۔
موسیٰؑ قریب گئے، اُس شخص سے کہا، اے خوش بخت، تیرا رب تُجھ پر اور تیری دعاؤں پر راضی ہے۔

جو الفاظ میں نے سکھائے، ان سے زیادہ تیرے رب کو تیرے الفاظ پسند ہیں۔ وہ تیرا محبوب ہے۔ تُو جیسے جی چاہے اُس سے باتیں کر۔ تیری کوئی بات گستاخی نہیں۔ تیری ہر بات محبت۔
ہاتھ میں چھڑی رکھنے والے تمام احباب کو یہ بات سیکھ لینی چاہیے، اگر کوئی آپ کے بتائے راستے پر نہیں چل رہا، ضروری نہیں کے اُس کی منزل بھی آپ سے جدا ہے۔ اُس کا محبت کا اظہار اگر مختلف ہےتو وہ غدار نہیں ہے، وہ داغدار بھی نہیں ہے۔

آپ اپنی ڈیوٹی نبھائیے، اُسے اپنی محبت نبھانے دیجیے۔
کپڑوں کا رنگ دل کے رنگ کا آئینہ دار نہیں ہوتا۔ آپ خاکی لباس پہنیے، کالے کپڑے زیبِ تن کیجیے، یا سفید پوشاک اوڑھ لیجیے، آپ کا دل پاکستانی ہے تو آپ کو حق حاصل ہے اپنی طرز محبت کے اظہار کا۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ مگر ادب کا پیمانہ صرف کسی خاص طبقے کی پسند کا نہیں ہو سکتا ہے۔

یہ راستوں کی بحث نہیں، منزلوں کا راز ہے۔  کوئی چھڑی اُٹھا کر خود کو  خدا کا پیغمبر سمجھنے کی جسارت مت کرے۔ ورنہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اور خدا کی لاٹھی اُس کے وہ بندے ہیں، جو دبلے پتلے  نظر آتے ہیں، مگر خدا کے نام پر خیبر کے دروازے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ جو  اپنی ذات کے لیے عاجزی کے ساتھ صبر کیا کرتے ہیں، مگر معصوموں پر  ظلم کرنے والی طاقتوں  کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔
بعض اوقات جسے بغاوت، گستاخی، اور غداری گردانا جاتا ہے، وہی محبت کی شرطِ اول ٹھہر جاتی ہے۔ پھر چراغ گُل بھی کر دیے جائیں، کوئی خیمہ چھوڑ کر نہیں بھاگتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :