
عالمی یوم آزادی صحافت اورصحافتی ذمہ داریاں
پیر 4 مئی 2020

وحید احمد
(جاری ہے)
کسی بھی جمہوری دور حکومت میں پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ، بے حد ضروری ہوتے ہیں اور ان تینوں کی بقاء اور سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ناگزیر ہے، اسی لیے صحافت کو چوتھی مملکت بھی کہا جاتا ہے، صحافت کی بے پناہ طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جارج ہشتم نے کہا تھا کہ "ٹائمز اخبار لندن، دریائے ٹیمز سے زیادہ خطرناک ہے"، جبکہ جارج اورویل جو ایک معروف ناول نگار اور صحافی تھے نے بے باک اور حق پر قائم صحافت کے بارے کہا تھا کہ "صحافت وہی چھاپ رہی ہے جسے دوسرے چھپنے نہیں دینا چاہتے،باقی سب پبلک ریلیشنز ہیں۔" آزادی صحافت کا مطلب ہے کہ بنا کسی قدغن کے صحافیوں کو ان کے فرائض بلا روک و ٹوک ادا کرنے دیے جائیں،خبروں پر سنسرشپ سے اجتناب کیا جائے، اور مخصوص خبریں حذف نہ کروائی جائیں لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں جابر و آمر اور مخصوص نظریات رکھنے والی حکومتیں، اہم حکومتی اور کاروباری شخصیات، ڈرگ مافیا اور دہشت گرد گروہوں کی جانب سے نہ صرف آزادی صحافت پر قدغن لگائی جاتی ہے، خبروں کو روکاجاتا ہے بلکہ صحافیوں کو جبری اغوا، سزائے قید یہاں تک کہ قتل تک کردیا جاتا ہے، لیکن حق بات پر ڈٹ جانے والے صحافی ان سب حالات کے باوجود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے خطرناک ترین علاقوں سے خبریں دنیا بھر کو پہنچاتے ہیں۔ صحافیوں کو تحفظ دینے والی کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق جابر اور آمر حکومتیں آزاد میڈیا کو خاموش کرنے کے لیے روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ڈیجیٹل سنسرشپ اور نگرانی کا استعمال کرتی ہیں، ان حکومتوں میں بالترتیب اریٹیریا، شمالی کوریا، ترکمانستان، سعودی عرب، چین، ویتنام، ایران، استوائی گنی، بیلاروس اور کیوبا شامل ہیں جبکہ بھارتی قابض افواج کشمیری مسلمانوں پر شدید ترین ظلم و بربریت کو دنیا کی نظروں سے چھپانے کے لیے میڈیا پر نہ صرف سخت ترین سنسر شپ کرتی ہیں بلکہ صحافیوں کو قیدوبند میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرزکی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 49 صحافی فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے گئے، 389 فی الحال جیلوں میں ہیں اور 57 صحافیوں کو یرغمال بنایا گیا جبکہ امسال اب تک ایک میڈیا اسسٹنٹ اور10 صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیا جا چکا ہے۔
اکیسویں صدی نے اطلاعات و نشریات اور صحافت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا،اخبار، ڈاک،برقی تار،فیکس، ریڈیو، ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن سے شروع ہونے والا سفریاہو، ایم ایس این ، اے او ایل، آئی سی کیو، آئی چیٹ میسنجر، گوگل ٹاک اورسکائپ سے ہوتاہواموبائل وجدید ترین اینڈرائیڈفون اور پھر اس سے واٹس ایپ، فیس بک میسنجر، زوم، گوگل ڈوؤ اور مارکوپولو جیسی جدید ترین ویڈیو کالنگ ایپس کی سرحدیں پھلانگتا ہوا وسعتوں کی مہیب گہرائی میں جا رہا ہے، "محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی"۔ اتنی جدید ترین اور تیز رفتار ترین سمعی، بصری اور تحریری سہولیات نے جہاں بریکنگ نیوز کو دنیا بھر کے ہر اس شخص تک لمحوں میں پہنچا دیا ہے جس کے پاس اینڈرائیڈ فون ہے وہیں اس کے تباہ کن نتائج بھی سامنے آئے ہیں، دیکھنے میں آیا ہے کہ فیک نیوز آناََ فاناََ پھیلی اوراس کے نتیجے میں بے گناہوں کو قتل کردیا گیا، یہاں تک کہ بپھرے ہوئے ہجوم نے درجنوں لوگوں تک کو مار ڈالا۔ کورونا کی عالمی وباء نے جہاں دنیا بھر میں اپنے مہیب پنجے گاڑ رکھے ہیں وہیں ان جدید صحافتی سہولیات نے صحت سے متعلق سخت نقصان دہ مشوروں سے لے کر جنگلی سازشی نظریات تک غلط معلومات کی ایک دوسری عالمی وبائی بیماری کو بھی جنم دیا ہے جبکہ صحافت تریاق فراہم کرتی ہے، تصدیق شدہ، سائنسی حقائق پر مبنی خبریں اور تجزیے۔(انتونیو گٹیرس، سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ)۔
ان حالات میں مین سٹریم میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر صحافتی فرائض سر انجام دینے والے صحافیوں اور میڈیا پرسنز پر ایک انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کسی بھی خبر کو آن ائیر کرنے یا سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے پہلے کم از کم ایک دفعہ اس کی مصدقہ ذرائع سے تصدیق ضرور کر لیا کریں، اگر خبر حکومتوں اہم شخصیات یا اہم اداروں کے افسران بالایا وزیروں سے متعلق ہوں تو ان کے آفیشل ٹوئٹرہینڈل سے یا کم از کم سرکاری پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے تصدیق کیے بنا ہرگز اس خبر کو شائع نہ کریں ، اور غیر مصدقہ خبروں اور انجان لوگوں کی طرف سے دی گئی اطلاعات کو آنکھیں بند کر کے شیئر کرنے سے اجتناب کریں، ہمارا دین بھی ہمیں اسی بات کی ترغیب دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے " اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو" (سورة الحجرات آیت 6) ۔
دنیا بھر میں ہر سال 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور منایا جاتا رہناچاہیے لیکن آزادی صحافت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف ریٹنگ ، کلک،لائک ، سستی شہرت پانے، کسی کو بدنام کرنے، بدلہ لینے یا بلیک میل کرنے کے لیے اصل خبر کی شکل مسخ کر کے یا خبر کے سنسنی خیز پہلو کی وحشت ناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کر کے اس کے مثبت پہلوؤں کویکسر ہی نظر انداز کر دیا جائے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
وحید احمد کے کالمز
-
کورونا کے سائے اور عالمی یوم خواندگی
بدھ 9 ستمبر 2020
-
آن لائن کلاسز کے مسائل اور ان کا حل
اتوار 28 جون 2020
-
اساتذہ کو عزت دو
منگل 26 مئی 2020
-
بچوں کی تربیت میں والدین اور اساتذہ کا کردار
ہفتہ 16 مئی 2020
-
ماں جیسی ہستی دنیا میں ہے کہاں
پیر 11 مئی 2020
-
عالمی یوم آزادی صحافت اورصحافتی ذمہ داریاں
پیر 4 مئی 2020
-
کورونااور سفید پوش مزدورطبقہ
جمعہ 1 مئی 2020
-
عالمی یوم خواندگی اورپاکستان
اتوار 8 ستمبر 2019
وحید احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.