عالمی یوم خواندگی اورپاکستان

اتوار 8 ستمبر 2019

 Waheed Ahmad

وحید احمد

خواندگی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی امی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر حضرت جبرائیل کے ذریعے غارِ حرا میں جو پہلی وحی نازل فرمائی اس کے اولین الفاظ ”اقراء“یعنی ”پڑھ“ تھے، صرف چار حروف پر مشتمل ان الفاظ کے اندر اس کائنات کو مسخر کرنے کا نسخہء کیمیا پوشیدہ ہے اور انہی الفاظ سے علم کی اہمیت آشکار ہوتی ہے،اس کے علاوہ قران و حدیث میں سینکڑوں آیات و احادیث خواندگی اور تعلیم کی اہمیت کو آشکار کرتی ہیں اللہ تعالیٰ سورة الزمر میں ارشادفرماتا ہے "کیاعلم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہو سکتے ہیں؟" ۔

تعلیم کی اہمیت کا اندازہ جن اقوام عالم پر آشکار ہو گیا وہی اقوام آج دنیا پر راج کر رہی ہیں،تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے دنیا کو مسخر کیا جا سکتا ہے، اس کے بغیر دنیا بھر کے تمام شعبے بے کار ہیں ، حیاتیاتی، کیمیائی یا ادویاتی سائنس ہو یا حیاتیاتی طب ،انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ہو یا کمپیوٹر، فن تعمیر ہو یا مجسمہ سازی، جوہری طبیعات ہو یا خلائی سائنس، بینکاری ہو یا ابلاغیات،ویٹرنری سائنس ، باغبانی ہو یا زراعت، ماہی پروری ہو یا آبی زراعت اور اس کے علاوہ ہزاروں شعبہ جات میں دنیا میں نام کمانے والے اور اس کائنات کو تسخیر کرنے والے سب اپنے میدان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر تھے ۔

(جاری ہے)

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شرح خواندگی کا براہ راست تعلق کسی بھی ملک کی معاشی، معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ ہوتا ہے اس کے باوجود ہم آج تک اپنے ملک کو کوئی بہتر نظام تعلیم دینے سے قاصر ہیں ، پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک جتنی بھی سیاسی پارٹیاں یا سیاسی قائدین آئے وہ کسی نہ کسی تناظر میں روٹی ، کپڑا اور مکان کی سیاست ہی کرتے رہے، اقوام عالم کے اعلیٰ پائے کے سیاستدانوں کی زندگی کا مطالعہ کرلیں یا ان کے سیاسی نظریات اور نعروں کو دیکھ لیں ، وہ کبھی بھی روٹی کپڑا اور مکان کی بات نہیں کرتے، بات کرتے ہیں تو تعلیمی اصلاحات کی، بات کرتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کی۔

فرانس کے بادشاہ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ " مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا" اور آج فرانس دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں سر فہرست ہے کیونکہ وہ اقوام اس بات کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ صرف نظام تعلیم اور شرح خواندگی کو بڑھا دینے سے عوام کی روٹی کپڑااور مکان کی بنیادی ضروریات خودبخود پوری ہو جائیں گی۔دستور پاکستان نے آرٹیکل 25-Aکے تحت ہماری حکومت کو اس بات کا پابند تو بنا دیا ہے کہ ریاست 5سے 16سال تک کی عمر کے ہر بچے کو لازمی اور مفت تعلیم مہیا کرے گی لیکن 72 سال گزر جانے کے بعد بھی ہماری حکومت یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور آج بھی پاکستان کی شرح خواندگی صرف 58 فیصد تک پہنچی ہے اگر ہمارے خطہ کی بات کی جائے تو بھارت کی شرح خواندگی 74.04 فیصد، بنگلہ دیش کی 72.89 فیصداور ایران کی شرح خواندگی 93 فیصد ہے ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے ہی خطہ میں شرح خواندگی کی دوڑ میں ہم سب سے پیچھے ہیں۔

مملکت کے تمام بچوں کو مفت، لازمی اور یکساں نظام تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں معیاری بنیادی تعلیم مہیا کرنا تو ایک طرف تعلیم کی درجہ بندی کر دی گئی ہے، اسی ملک میں ایک طرف بچے اعلیٰ پائے کے سکولوں میں ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں کرسیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو دوسری طرف گورنمنٹ سکول کے پرائمری کے طلباء و طالبات فرنیچر اور بجلی سے محروم کمرہ جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور بسا اوقات تو دور دراز کے علاقوں میں سرکاری سکول بلڈنگ سے بھی محروم ہوتے ہیں، ایک طرف امراء کے سکول ہیں جہاں جدید طریقہ تدریس کے ذریعے غیرملکی نصاب پڑھایا جاتا ہے تو دوسری طرف گورنمنٹ کے ٹیکسٹ بک بورڈز کا نصاب پڑھایا جا رہا ہوتا ہے جس کو چند سال کے بعد ہی مکمل طور پر بدل دیا جاتا ہے اور نیا نصاب نئی کتب کی صورت میں بھیج دیا جاتا ہے جو کہ نہ صرف اغلاط سے بھرپور ہوتا ہے بلکہ والدین پر معاشی بوجھ کا باعث بھی بنتا ہے کیونکہ فری ٹیکسٹ بکس انگریزی میں ہوتی ہیں اوراندازاََ 70 فیصد سے زیادہ سرکاری سکولوں میں اردو میڈیم کتابیں پڑھائی جاتی ہیں تو مجبوراََ والدین کو اردو میڈیم کتابیں خود خریدنی پڑتی ہیں،ایک طرف بین الاقوامی نصاب اور دوسری طرف ملکی نصاب، ہم کیسے ان کو ایک ہی ترازو میں تولیں؟ ان تمام حالات و واقعات کے تناظر میں شرح خواندگی سسکیاں لے لے کر ہی آگے بڑھے گی ۔

لوگوں کی معاشی حیثیت، معاشرتی رہن سہن اور صنف پر مبنی تفاوت بھی خواندگی پر اثر انداز ہونے والے اہم عوامل میں شامل ہیں، سندھ میں 52 فیصد غریب ترین بچے جن میں سے 58 فیصد لڑکیاں ہیں اور بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں یہ اور اس جیسے سینکڑوں عوامل شرح خواندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آج بھی یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے اندازاََ 22.8 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں جو کہ اسی عمر کے بچوں کی کل تعداد کا 44 فیصد بنتے ہیں۔

5 سال سے 9 سال تک کی عمر کے 5 ملین بچے سکول سے باہر ہیں اورپرائمری کے بعد سکول سے باہر بچوں کی یہی تعداد دگنا ہوجاتی ہے ۔11.4 ملین نوبالغ جن کی عمریں 10 سال سے 14 سال ہیں وہ رسمی تعلیم سے محروم ہیں۔نظام تعلیم کی پیشرفت میں تیزی لانے اور معیاری تعلیم کی یکساں توسیع کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے، ابتدائی بچپن کی تعلیمECE پر بھرپور توجہ دی جائے، خواندگی پر کام کرنے والے تمام غیر سرکاری ادارے حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں غیر رسمی تعلیم کی حمایت کی جائے اور غیر رسمی تعلیم پر کام کرنے والے حکومتی اداروں کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیر رسمی اساتذہ کے مشاہرہ میں بھی اضافہ کیا جائے تا کہ وہ محنت اور لگن کے ساتھ تدریسی سرگرمیاں ادا کر سکیں۔

شرح خواندگی کے فروغ کے لیے محکمہ خواندگی و غیر رسمی بنیادی تعلیم حکومت پنجاب کی خدمات سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جا سکتا، لٹریسی ڈیپارٹمنٹ پنجاب بھر کے دور دراز علاقوں میں جہاں رسمی سکولوں کا نام و نشان تک نہیں ہے وہاں نہ صرف بچوں کو معیاری پرائمری تعلیم فراہم کر رہا ہے بلکہ تعلیم بالغاں کے مراکز کھول کر بالغوں کو بھی خواندہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر لٹریسی طاہرہ رفیق کے مطابق ضلع خانیوال میں محکمہ خواندگی و غیر رسمی بنیادی تعلیم کے تحت 400 نان فارمل بیسک ایجوکیشن سکول اور 35 نان فارمل ایجوکیشن فیڈر سکول کام کر رہے ہیں اور ان سکولوں میں تقریباََ 16 ہزار طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں اور لٹریسی ڈپارٹمنٹ ضلع بھر کے دور دراز علاقوں میں خواندگی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔


8 ستمبر کوہر سال دنیا بھر میں عالمی یوم خواندگی کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد خواندگی کے فروغ اور اس سلسلہ میں عملی اقدامات کو ٹھوس شکل دے کر اس کا نفاذ کروانا ہے۔سال 2019 کے عالمی یوم خواندگی کا عنوان " خواندگی اور کثیر اللسانیت" ہے۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آژولے نے عالمی یوم خواندگی کے بارے پیغام میں کہا کہ ہماری دنیا تقریبا 7000 زندہ زبانوں سے متمول اور متنوع ہے۔

یہ زبانیں مواصلات، زندگی بھر کی تعلیمی مصروفیات، معاشرے اور دنیا میں کام کرنے کی آلہ کار ہیں۔ ان کی مخصوص شناخت، ثقافت، عالمی نظارے اور علم کے ساتھ بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ لہذا تعلیم اور خواندگی کی ترقی میں لسانی تنوع کو اپنایا جانا جامع معاشروں کی ترقی کا ایک اہم حصہ ہے جو ''تنوع'' اور ''فرق'' کا احترام کرتے ہیں اور انسانی وقار کو برقرار رکھتے ہیں ۔
آئیے ہم اس عالمی یوم خواندگی پر عہد کریں کہ خواندگی کے فروغ کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے اور ملک پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :