ماں جیسی ہستی دنیا میں ہے کہاں

پیر 11 مئی 2020

 Waheed Ahmad

وحید احمد

ماں بے پایاں شفقت،پیکر خلوص، بے لوث محبت، لازوال قربانی، ایثار اور عزم و ہمت کادوسرا نام ہے۔ماں کا سایہ اولاد کے لیے چلچلاتی دھوپ میں شجر سایہ دار بن کر اولاد کو سکون کا ایک گداز احساس دلاتاہے، بے پناہ سرد موسم اور ہڈیوں کو منجمد کر دینے والی ٹھنڈ میں بھی اس کی گرم آغوش میں سردی کا احساس نہیں ہوتا۔جہان بھر کے درد و الم کو اپنے آنچل میں لپیٹے ،لبوں پر ایک نیم وا مسکراہٹ لیے بچوں کو ہنسانے میں مصروف رہتی ہے، اس کی محبت بے غرض، بے لوث اور ہر قسم کے تصنع سے پاک ہے، نہ وہ اولاد پر احسان جتاتی ہے، نہ کبھی اپنے احسانات کا صلہ مانگتی ہے، ماں کی عظمت کو اللہ تعالیٰ نے اس کے قدموں تلے جنت رکھ کے عوج ثریا تک پہنچا دیااور یہ بات ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس کی بے پایاں محبت کے بحر بے کراں کو دنیا کی کوئی لغت لفظوں میں نہیں پرو سکتی ۔

(جاری ہے)

ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کی تعریف و توصیف کرنے کے لیے اس سارے جہاں کی روشنائیاں بھی ہیچ پڑ جائیں، جس کی محبت و شفقت کے ایک حوالے کے آگے دنیا بھر کی عشق و محبت کی داستانیں دم توڑ جائیں، جس کی قربانیوں کا ذکر کیا جائے تو دنیا سے کوئی مثال نہ بن پڑے، جس کی دعاؤں کا تذکرہ کیا جائے توبات حضرت موسیٰ کلیم اللہ پر جا کر ختم ہو،کہتے ہیں ماں کے دل سے جو دعا نکلے وہ عرش تک رسائی رکھتی ہے،حضرت موسیٰ والدہ کی وفات کے بعد کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے بات کرنے جاتے ہیں تو خدائے بزرگ و برتر موسیٰ سے فرماتے ہیں " اے موسیٰ آج ذرا سنبھل کر"۔


"ماں جی" قدرت اللہ شہاب کا ایک شاہکار افسانہ ہے جو انہوں نے اپنی ماں کی وفات پر لکھا تھا، غم و اندوہ کی شدت سے بے حال وہ ایک کاغذ پر سر جھکائے بے ساختہ "ماں جی " کے عنوان سے ان کی یادوں کی جمع پونجی صفحہ قرطاس پر منتقل کر رہے تھے، لکھتے لکھتے آنکھوں سے بار بار آنسو ٹپ ٹپ کر کے گر رہے تھے اور کاغذ پر تحریر شدہ الفاظ بھیگ کر لکیروں کی صورت پھیل رہے تھے، صدر ایوب ان کے کمرے میں کسی کام سے بذات خود گئے اور انہیں آنسو بہاتے دیکھ کر چپ چاپ واپس چلے گئے، بعد میں ملنے پر کہنے لگے ، سوات چلے جاؤشاید تمھارا غم کسی قدر ہلکا ہو جائے، انہوں نے جواب دیا" سر آج ایک خاص بات تھی، وہ پوری ہو گئی ہے، اب میں نارمل ہوں"۔

وہ نرمی سے بولے ایسی کیا خاص بات تھی ؟"کچھ ہمیں بھی تو اعتماد میں لو"قدرت اللہ شہاب بولے" سر، میں نے اپنی ماں کی یاد کو الفاظ میں ڈھال کر کاغذ پر منتقل کر دیا ہے، "اب یہ المیہ صرف میرا ہی غم نہیں رہا"۔ماں جی کا اولین فقرہ یہ ہے، "ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا" اور ویسے بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال کیسے معلوم ہوسکتا تھا؟صحیح سن ولادت تو اس شخص کا معلوم ہو سکتا ہے جس کا تعلق دوران وقت سے ہو، جو ہستی زمان و مکاں کی حدود سے ماورا ہواسے وقت کے پیمانے سے کیسے ماپا جا سکتا ہے؟ماں جی ایک ہستی، ایک فرد ، ایک شخصیت کے بجائے آفاقی "ممتا "یا "مامتا" کا تصور دیتی ہے، ایک ازلی اور ابدی وجود(UniversalMotherhood)۔

قدرت اللہ شہاب کے والد کا نام عبداللہ تھا، جنہیں وہ عبداللہ صاحب کہتے تھے، سرسید احمد خان عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلواتے ہیں کہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں، مگر عبداللہ صاحب کی والدہ بیٹے کو انگلستان جانے سے روک دیتی ہیں۔ عبداللہ صاحب وظیفہ واپس کر دیتے ہیں ، سرسید سخت خفا ہو کر پوچھتے ہیں ،" کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو۔

"
"جی ہاں"، عبداللہ صاحب جواب دیتے ہیں۔ (میرزا ادیب، نقوش، لاہور)
 ماں کی شفقت و محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مُحسن ِ انسانیت، نبی ِ رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”اگر ننھے اور معصوم بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلایا جا رہا ہوتا، بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد اپنے ربّ کے حضور عبادت میں جُھکے نہ ہوتے اور معصوم جانور میدان میں چرنہ رہے ہوتے تو یقیناً تُم پر سخت عذاب ہوتا“۔


ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت حضوراکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اس کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور اپنی چادر مبارک ان کے بیٹھنے کے لئے بچھا دی۔ صحابہ اکرام نے پوچھا یارسول اللہ یہ کون عورت تھی۔ آپ نے فرمایا یہ میری رضائی ماں حلیمہ سعدیہ تھیں۔ رسول پاک جب بھی حضرت حلیمہ سعدیہ کو دیکھتے تھے تو میری ماں میری ماں کہہ کر ان کی طرف دوڑتے ہوئے تشریف لے جاتے تھے۔


دنیا بھر میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو عالمی یوم مادر منایا جاتا ہے لیکن کیا یہ دن صرف امراء کی ماؤں کے لیے مخصوص ہے؟ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں سڑک پر پتھر ڈھونے والی بھی تو ماں ہوتی ہے، تپتی سڑک پر کالا برقعہ اوڑھے ایک ہاتھ سے شیر خوار بچہ اٹھائے اور دوسرے ہاتھ میں ایک گتے کا بورڈاٹھائے مدد کی التجا کرنے والی بھی تو ماں ہوتی ہے، اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے واسطے در در کی ٹھوکریں کھانے والی بھی تو ماں ہوتی ہے، اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت مہیا کرنے کے واسطے لوگوں کے جھوٹے برتن دھو کر اور مالکوں کی دی ہوئی اترن پہن کر خوش ہونے والی بھی تو ماں ہوتی ہے۔

کہتے ہیں والدین ماں اور باپ کو کہا جاتا ہے، اے اہلِ معاشرہ، اے دنیا کے منصفو، اے ریت و رواج تشکیل دینے والو، اے مسجد و منبر پر کھڑے ہو کربھاشن دینے والو، مجھے جواب دو، جن جوان عورتوں کو تمھارے معاشرے کے کریہہ اور بدصورت مرد بچوں کی پیدائش کے بعد بھی چھوٹی سی بات پر طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگاکر انہیں واپس بوڑھے والدین کے سر پر لاد دیتے ہیں اور جنہیں تمہارا یہ ناپاک لیکن نام نہاد باشعور معاشرہ دوبارہ اپنانے سے انکاری ہوجاتا ہے، انہیں "اچھوت" سمجھنے لگتا ہے، کیا ان کے بچے جواں ہو کر جب ان سے پوچھیں گے کہ" یوم مادر" کیا ہوتا ہے تو کیا ان کی چیخیں اس روز ضبط کے سارے بندھن توڑ کر عرشِ الٰہی کو نہیں ہلائیں گی؟
گر ماں کے عوض عرض و سماوات کے مالک
دے ساری خدائی بھی تو میں لے نہیں سکتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :