وقت ہے ، بدل بھی سکتا ہے

پیر 26 اگست 2019

Waqas Ahmad

وقاص احمد کاوش

شور ہے کہ بڑھتا جاتا ہے،ہر طرف ایک ہی قصہ ہے تبدیلی کیسے آئے ؟ہر طرف آوازیں ہی آوازیں ہیں، سسکیوں ، پریشانیوں ،آہوں ، غربت،بے روزگاری کے ڈھیرے ہیں۔لوگ خود کو بُھلا کر سیاست میں مصروف ہیں۔چائے کی پتی میں رنگ ملانے والا چائے فروش ، 50 یونٹ کو 1500 یونٹ لکھنے والا میٹر ریڈر،خالص گوشت کے پیسے وصول کرکہ ہڈیاں بھی ساتھ تول دینے والا قصائی،خالص دودھ کا نعرہ لگا کر پانی پاوڈر کی ملاوٹ کرنے والا گوالا،گاڑی کے اوریجنل سپیئر پارٹس نکال کر دو نمبر لگانے والا مستری،بے گناہ کے ایف آئی آر میں دو مزید ہیروئین کی پوڑیاں لکھنے والا انصاف پسند ایس ایچ او،گھر بیٹھ کر حاضری لگوا کرحکومت سے تنخوا ہ لینے والا مستقبل کی نسل کا معمار استاد،کم ناپ تول کرکہ دوسروں کا حق کم کرکے پورا پیسہ لینے والا دکاندار،100 روپے کی رشوت لینے والا عام معمولی سا سپاہی، معمولی سی رقم کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنیوالا وکیل، دس روپے کے سودے میں ایک روپیہ غائب کردینے والا بچہ،آفیسر کے لیے رشوت لے جانے والا معمولی سا چپڑاسی،کھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کر کے ملک کا نام بدنام کرنیوالا کھلاڑی ،دشمن ملک میں شہرت اور دولت کی خاطر ملک کی عزت خاک میں ملانے والا اداکار اور گلوکار،ساری رات ننگا ناچ اور فحش فلمیں دیکھ کر فجر کو اللہ اکبر سنتے ہی سونے والا نوجوان،کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی سڑک بنانے والا ایم پی اے، لاکھوں غبن کرکہ دس ہزار کے ہینڈ پمپ لگانے والا جابر ٹھکیدار،ہزاروں کا غبن کرکہ چند سو میں ایک نالی پکی کرنے والا ضمیر فروش ممبر صاحب،پوری رات دلالی کرکہ فاحشہ کو 30 ہزار میں 5 ہزار دینے والا دلال،غلہ اگانے کے لیے بہاری بہرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چودہری صاحب، زمین کے حساب کتاب و پیمائش میں کمی بیشی کرکہ اپنے بیٹے کوحرام مال کا مالک بنانے والا پٹورای،اپنے قلم کو بیچ کر پیسہ کمانے والا صحافی،کیپسولز میں اسٹیرائیڈ پیس کر دینے والا حکیم،10 روپے کا ٹیکہ لگا کر 200 کمانے والا ڈاکٹر،ملٹی نیشنل کمپنی کی دواء کے پیسے لے کر لوکل کمپنی کی دوا دینے والے فارماسسٹ،ہرایک سمجھتا ہے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے ، کوئی کہتا ہے حکمران کرپٹ ہیں، کوئی کہتا ہے یہہودی سازش ہے، میں صرف اتنا ہی کہوں گا
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
سوچتا ہوں پرندے کیوں نہیں آتے؟ سوچتا ہوں بہار یں کیوں نہیں آتیں؟ سوچتا ہوں وہ خطہ جہاں قدرت نے سارے وسائل دیے وہ اتنا ویران ،پریشان کیوں ہے؟ سوچتا ہوں کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟سوچتا ہوں وقت کیسے بدلے گا ،حالات کیسے ٹھیک ہوں گے؟سوچتا ہوں وہاں تبدیلی کیسے آئے جہاں سڑک کے کنارے سانڈے کا تیل بیچنے والے کو حکیم اور ڈاکٹر کہا جائے ، جہاں گھروں میں مردوں کے ہوتے ہوئے بھی اہم نوعیت کے فیصلے عورتوں سے کروائے جائیں، جہاں سڑک کے کنارے ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والے کو پروفیسر اور عامل کہا جائے ،جہاں دوسروں کی ڈگریاں ویری فائی کرنے والے خود جعلی ڈگری ہولڈر ہوں،جہاں مذہبی لبادہ پہننے والے لوگ مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہوں،جہاں چور،ڈاکو اور قاتلوں کو اسمبلی پہنچا کر وذیر کہا جائے،جہاں سچ میں جھوٹ کے ملاوٹ کے بغیر ہمارے رشتے نہ بنتے ہوں، ایسی قوم جس کا آغاذ اقراء کے نام سے ہوا ہو مگر آج وہ تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہو ،جہاں ایم بی بی ایس کی ڈگری قابلیت کے بجائے رشوت اور سفارش کی بنیاد پر دی جائے ، جہاں لوگ دو کلو خربوزے لیتے وقت ساری ریڑھی سونگھتے ہوں مگر حکمران چنتے وقت اندھے ہو جاتے ہوں ،جہاں جواں سالہ بیٹیوں والے غریب, مظلوم اور بھوکوں کی گھر کے دیوار کے ساتھ کروڑوں روپے کی مسجد بنائی جاتی ہو ،جہاں دکھ ،تکلیف اور درد غریب لوگوں کو دیے جاتے ہوں مگر معافی خدا سے مانگی جاتی ہو ،جہاں ایک پروفیسر کی پورے سال کی تنخواہ گویے کی ایک گھنٹے کی کمائی سے کم ہو ،جہاں بھاری جیب والے کی غلط بات کو بھی درست قرار دیا جائے،جہاں ملازمین کام نہ کرنے کی تنخواہ لیکن کام کرنے کی رشوت لیتے ہوں ،جہاں لوگ اپنے بنیادی حقوق کو بھی ترقی سمجھتے ہوں، جہاں لوگ دوست تو چھوڑ دیتے ہیں مگر فضول بحث نہیں چھوڑتے،جہاں خوشامد کرنے والے کو فنکار مگر سچ بولنے والے کو غدار ،بد تمیز کہا جاتا ہو، جہاں سب سے زیادہ سچ شراب خانوں میں شراب پی کر بولا جاتا ہو،جہاں ٹماٹر سو روپے کلو جبکہ موبائل کی سم مفت ملتی ہو، جہاں دہشت گردوں کو مجاہد جبکہ مجاہد کو دہشت گرد کہا جاتا ہو، جہاں کے حکمران پیسہ لگا کر اقتدار خریدتے ہوں، جسکے منصف انصاف کے ترازو میں دولت کے وزن کے مطابق انصاف مہیا کرتے ہوں ،جہاں کے دوکاندار اور تاجر حضرات حرام پیسوں کی کمائی سے حج وعمرے کرتے ہوں ، جہاں بے روزگاری, بھوک اور افلاس زور پر ہوں مگر حکمران تماشائی بن کر بیٹھے ہوں ،جہاں لوگ محافظوں سے راستہ بدل کر گزریں کہ کہیں چائے پانی نہ مانگ لیں،جہاں صدقات, عطیات اور زکوات دیتے وقت رنگ نسل اور شخصیت کو ترجیح دی جائے ۔

(جاری ہے)

سنو ہمیں رونے دھونے اور شکوے وشکایت کرنے کے بجائے اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ جب ہر کوئی کشتی میں اپنے حصے کا سوراخ کر رہا ہو تو پھر یہ نہیں کہنا چاہیے فلاں شخص کا سوراخ مجھ سے بڑا تھا بلکہ کشتی ڈوبنے کے ہم سارے برابر قصور وار ہوں گے۔سنو اگر ہم خود کو بدل لیں اپنی سوچ کی سمت درست کر لیں اپنا احتساب کر لیں تو یہ وقت بدل سکتا ہے۔

یہ باتیں چھوڑ دو کہ حکمران کیسے ہیں کیوں کہ میرے رب کا فرمان ہے کہ جیسے عوام ہوں گے میں ویسے ہی حکمران اُن پہ مسلط کروں گا “۔ اور اللہ کے قانون کبھی بدلا نہیں کرتے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ ہر انسان الہ دین کے چراغ کے جن کے انتظار میں ہے ہر کسی کو معجزہ کا انتظار ہے، خود اپنے لیے کچھ کرنا ہو گا،خود غرضی لالچ حوس بے ایمانی بد دیانتی اور کاہلی کو ختم کرنا ہو گا کیوں کہ شخصی تبدیلی ہی اجتماہی تبدیلی ہے۔

وقت بدل سکتا ہے، خوشحالی آ سکتی ہے اگر ہم اپنی سوچ کے زاویوں کا رُخ موڑ دیں ،اگر ہم حیوانوں کے بجائے انسان بن جاہیں، اگر ہم اپنے اعمال درُست کر لیں ، کیوں کہ وقت ہے بدل بھی سکتا ہے۔وفادار بنیں عمران خان ، زرداری اور نواز کے نہیں ۔ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کا حوصلہ پیدا کریں یہی سب سے بڑی حبُ الوطنی اور تبدیلی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :