ریاست یا نظام ؟

بدھ 14 جنوری 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

ہم بھی کیا اللہ لوک ہیں فوجی عدالتوں کے قیام پر نالاں ہیں اور فوجی حکومتوں کے ساتھ کھڑا ہونے کو سعادت تصور کرتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان ہوں یا جماعت اسلامی ، پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا اے این پی ، تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ فوج کے ساتھ سب کا دوستانہ قائم رہا ۔ فوجی عدالتوں کے قیام پر رضا ربانی اس طرح آنسو بہاتے ہیں گویا ان عدالتوں کا نظم و نسق پاکستانی نہیں بھارتی فوج کے ہاتھوں میں ہوگا۔

بابا جی سندھ میں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ۔بچے خوراک اور بوڑھے ادویات کو ترس رہے ہیں آپ ان دکھیاروں پر آنسو بہائیے بلکہ ماتم کیجئے کہ آپ کی حکومت نے ان خانماں بربادوں کی کوئی داد رسی نہیں کی۔ داد رسی کیا کرنی تھی بلکہ آپ ہی کی حکومت ان دگرگوں حالات کی حقیقی زمہ دار ہے ۔

(جاری ہے)

ویسے تو آنسو بہانے کیلئے وہ بھی خوبصورت موقع تھا جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جناب ذولفقار علی بھٹو اپنے اور فوجی آمر جنرل ایوب خان کے تعلق کو باپ بیٹے کا تعلق قرار دیتے تھے اور بعد ازاں اسی فوجی آمر کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے منصب پر فائز بھی ہوئے ۔

مسلم لیگ کنونشن جو کہ ایک فوجی آمر یعنی جنرل ایوب خان کی قائم کی ہوئی سیاسی جماعت تھی جناب بھٹو اس ”فوجی“پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے تھے ۔ رضا ربانی صاحب کی یاددشات کیلئے عرض ہے کہ جب جنرل ایوب عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے سبب اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کر گئے تو وہ ذولفقار علی بھٹو ہی تھے جو یحییٰ خان کے قریب ہوگئے تھے۔ بلکہ پیرزادہ کے بقول جنرل یحییٰ خان کے اکثر اخباری بیان بھی بھٹو ہی لکھا کرتے تھے ۔

فوجی عدالتوں کے قیام پر آنسو بہانے کی بجائے اس موقع پر آنسو بہانا زیادہ موزوں اور مناسب تھا جب واقفان حال کہہ رہے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 10اپریل 1986کو پاکستان آمد فوجی حکمران جناب ضیاء الحق کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ ہے ۔ تب بھی دو چار آنسو بہائے جا سکتے تھے جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او دستخط کر رہی تھیں اور اسی فوجی حکمران کے نمائندے ، الطاف حسین اور محترمہ بے نظیر بھٹو لندن میں جیک سٹرا کے دفتر میں بیٹھ کر واپسی کا شیڈول مرتب کر رہے تھے ۔


آنسوؤں کا زکر چھوڑیے یہ رضا ربانی صاحب کا معاملہ ہے آپ کو مولانا فضل الرحمان کے ”تحفظات“پر ہنسی تو آتی ہوگی ۔ جب وہ کہتے ہیں اللہ نے انہیں فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے کی جانے والی آئینی ترمیم کے گناہ سے بچا لیا ہے تو انہیں خیال نہیں گزرتا کہ کاش میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ نبھائی جانے والی دوستی کے گناہ سے بھی محفوظ رہتا ۔

ہو سکتا ہے جے یو آئی کا کوئی کارکن کبھی مولانا سے استفسار کرے کہ مولانا آپ کی تمام سیاسی زندگی حاملین اقتدار کے ساتھ اتحادوں سے عبارت ہے کیا عجب ہے کہ میاں نواز شریف ہوں یا محترمہ بے نظیر بھٹو ، آصف علی زرداری ہوں یا قاضی حسین احمد آپ سب کیلئے دیدہ دل فرش راہ کیوں ہوتے ہیں؟ ۔جیسے حمیت تیمور کے گھر سے کہیں چلی گئی تھی اسی طرح آپ کے اصول اور عقائد و نظریات کہاں چلے گئے ہیں ؟۔

فیس بک پر ایک شرارتی اور بدتمیز نوجوان نے پوسٹ لگائی تھی کہ ”مولانا وہ واحد سیاستدان ہیں جنہیں کوئی نہیں خرید سکتا بلکہ وہ کرائے پر بھی مل جاتے ہیں “۔ اب مجھے بتائیں ایسے ناہنجار اور گستاخ بچوں کوکس دلیل سے روکا جائے ؟۔ انہیں کیسے یقین دلایا جائے کہ مولانا ایسے نہیں ہیں جیسے کہ وہ دکھتے ہیں بلکہ وہ بہت بھلے مانس اور منجھے ہوئے سیاستدان اور مذہبی رہنما ہیں تبھی تو وہ فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں۔

اب زرا جماعت اسلامی کے حال دیکھئے امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق بھی فوجی عدالتوں کے قیام پر معترض ہیں حالانکہ امیر جماعت کو اپنے ”آباء“سے ”نسبت“ہونی چاہئے تھی اور میاں طفیل محمد مرحوم کے ان مراسم کو ملحوظ رکھنا چاہئے تھا جو وہ جنرل ضیاء الحق سے قائم کر چکے تھے ۔ بلکہ تاریخ کا ایک طالب علم مجھے بتا رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق اس وقت کے امیر جماعت میاں طفیل محمد کو اپنا ماموں کہا کرتے تھے ۔

میں اس طالب علم سے یہ نہیں پوچھ سکا کہ جنرل ضیاء الحق میاں طفیل صاحب کو ماموں کہتے تھے یا ”بناتے“تھے۔سراج الحق اس وقت اپنے علاقہ کے مڈل سکول میں زیر تعلیم ہونگے اس لیے انہیں یاد نہیں ہوگا کہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلانے والی تمام سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد 1978ء میں ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہو کروزارتوں کو قبول کیا تھا ۔

یہ محض اتفاق ہے کہ وزارتوں کو قبول کرنے والی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی ۔ جناب سراج الحق کی تالیف قلب کیلئے عرض کر دیتا ہوں کہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینے میں ہزیمت زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس وقت بابائے جمہوریت جناب نواب زادہ نصراللہ خان بھی اس ”سعادت“ سے بہرہ ور رہے ہیں ۔کیونکہ انہوں نے کسی سے سن رکھا تھا کہ ”ایں سعادت بزور بازو نیست “اسی لیے انہوں نے پاکستان جمہوری پارٹی کے چودھری ارشد کو جنرل ضیائل الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر بنالیا تھا ۔

اسی طرح جمہوریت کے حسین نغمے کو اقتدار کی دھن میں گنگنانے والی اے این پی کی بیگم ولی خان کا کہنا ہے کہ ”وہ جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں مانگا کرتی تھیں کہ فوج آئے اور انہیں بھٹوسے نجات دلائے“۔تحریک انصاف ان دنوں خان صاحب کی شادی کی خوشیاں منا رہی ہے مگر انہوں نے فوجی عدالتوں کیلئے کی جانے والی آئینی ترمیم سے خود کو ”بچا“لیا ہے ۔

مگر یہ افسوسناک سچ ہے کہ تحریک انصاف جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اور ”غیر شرعی“ریفرنڈم کی حمائت سے خود کو نہیں بچا پائی ۔
آخر میں ذبیح اللہ بھائی استفسار کرتے ہیں کہ جب مارشل لاء آتا ہے تو یہی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس سے مستفید ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں اس وقت نہ صرف فوجی عدالتیں بلکہ سارے کے سارے مارش لاء کو قبول کر لیا جاتا ہے ۔

آج اگر دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرنے کیلئے کچھ بڑے اور اہم اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں تو ہمیں فوجی عدالتوں کے قیام سے جمہوریت خطرے میں کیوں دکھائی دینے لگی ہے ۔ اللہ والیو!!نظام ریاست کو بچانے کیلئے ہوتا ہے ریاست نظام کو بچانے کیلئے نہیں ہوتی۔ ظالم اور بے رحم درندے ہمارے بچوں اور عورتوں کو لخت لخت کرتے رہیں اور ہم ردائے جمہوریت کو غلاف کعبہ تصور کر کے اس چمٹے رہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :