تعلیم برائے کاروبار

پیر 21 دسمبر 2020

 Zafran Haider Rathore

زعفران حیدر راٹھور

حالیہ دور میں جہاں کرونا وائرس نے اجتماعی و انفرادی معیشیت پہ گہرے اثرات مرتب کیے ہیں وہیں آزاد کشمیر کی تمام جعامات میں سمسٹر فیس کی غرض سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عام حالات میں طلباء اور یونیورسٹی انتظامیہ کے مابین فیس اور دیگر چارجز پہ معاملات و تحفظات رہتے ہیں ۔ بغض اوقات انتظامیہ تحفظات دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کبھی کبھار طلباء کو مجبوراً احتجاج کی راہ اختیار کرنا پڑتی ہے ۔


جو طلباء و طالبات یونیورسٹی ہاسٹل  کی سہولت سے استفادہ  کرتے ہیں انکا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ یونیورسٹی ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرتے اسلئے ان سے ٹرانسپورٹ چارجز نہ لئے جائیں لیکن یونیورسٹی انتظامیہ ہمیشہ سے بضد رہی ہے۔ طلباء سے یوٹیلیٹی چارجز اور متفرق فنڈز Miscellaneous fundsکی مد میں ہر سمسٹر فیس کے لئے مبلغ دس سے بارہ ہزار وصول کیے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

جس بارے میں طلباء کے ہمیشہ سے تحفظات رہے ہیں۔ لیکن چونکہ کرونا وائرس کے باعث ملک میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ نے ان لائن تعلیم کا انتظام کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بھاری فیسوں کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ یہ لوٹ مار آزاد کشمیر کی کسی ایک یونیورسٹی میں نہیں بلکہ تمام جامعات میں حکومت اور صدر ریاست/ چانسلر جامعات کے زیر سایہ جاری و ساری ہے۔

گزشتہ نو ماہ سے طلباء نے متعدد بار ان ظلم و انصانی کے خلاف آواز بلند کی لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں ۔ صدر ریاست/ چانسلر جامعات آزاد کشمیر سے جب یہ مطالبہ کیا گیا کہ سمسٹر فیس کے ساتھ اضافی 11 ہزار چارجز کو سمسٹر فیس سے حذف کیا جائے تو موصوف نے صرف دو ہزار رعایت کا اعلان کیا یعنی گیارہ سے کم ہوکر نو ہزار اضافی فنڈز پھر بھی یونیورسٹی کو ہر صورت جمع کروانے تھے ۔

مجبورا طلباء نے سمسٹر ضائع ہونے کے ڈر سے بالآخر یہ فنڈز بمعہ سمسٹر فیس جمع کراودئیے۔
یونیورسٹی کے طلباء اپنے جائز مطالبات  کسی فورم پہ اس ڈر سے نہیں پہنچا سکتے کہ کہیں ان کا تعلیمی سفر داؤ پہ نہ لگ جائے۔ چونکہ یہ روایت ہے جو بھی طالب علم طلباء حقوق کی بات کرتا ہے یونیورسٹی انتظامیہ کی آنکھوں میں آجاتا ہے اور پھر انتظامیہ کے با اثر آفیسران اس کو بے شمار مضامین میں فیل کروا کر ہی دم لیتے  ہیں۔

یوں سمجھئے یہ ایک ڈیکٹیٹرشپ ہی جس میں طلباء اپنے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے قاصر  ہیں۔
اب کی بار پھر سے اضافی چارجز کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔کل ہی فیس کے چالان موصول ہوئے جس میں   یوٹیلیٹی چارجز اور متفرق فنڈزMiscellaneous fundsکی مد میں 11 ہزار کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

ایسی صورت حال میں جب طلباء گھر بیٹھ کر  آن لائن تعلیم حاصل کررہے ہیں از خود انٹرنیٹ کا بندوست کرتے ہیں جس کے لئے رقم درکار ہوتی ہے۔

دور دراز علاقوں سے طلباء روانہ ایسے علاقے کی طرف رخ کرتے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت قدرے بہتر ہوتی ہے نہ تو یونیورسٹی کا نیٹ استعمال کرتے ہیں ، نہ  ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کی جانب سے کسی سہولت سے استفادہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود 11 ہزار روپے یوٹیلیٹی چارجز اور متفرق فنڈز کی مد میں طلب کئے جارہے ہیں۔  جو نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ ظلم ہے۔


یونیورسٹی انتظامیہ سے اس بارے میں بات چیت بعد موقف سامنے آیا ہے کہ حکومتی منظوری کے بغیر وہ کوئی رعایت نہیں دے سکتے جس کا مطلب ہے جناب چانسلر جامعات اور حکومت آزاد کشمیر طلباء سے اضافی فنڈز بٹورنے کے لئے سرگرم ہیں۔
یاد رکھئے اب کی بار طلباء چپ نہیں بیٹھیں گے نہ ہی کسی دباؤ میں آئیں گے۔ نہ ہم فیل ہونے کے ڈر سے جھکیں گے اور نہ کوئی غیر تسلی بخش جواب ہمیں اس تحریک سے روک سکے گا۔


  آزاد کشمیر بھر کے طلباء و طالبات سے میری التماس ہے لوٹ مار کی مہم کے خلاف آواز بلند کریں ورنہ یہ ظلم و انصانی آپ کا مقدر رہے گی اور ہم اب ناانصافی کے خلاف کب تک چپ رہیں گے آخر کب تک ؟؟
کیا آپ  نہیں جانتے   طلباء کتنی بڑی طاقت ہیں یا پھر آپ انتظامیہ کے گھناؤنے اقدام سے ڈر رہے ہیں ؟ لیکن یہ یاد رکھیں طلباء نہ گولی سے ڈرے ہیں نہ جھوٹی ایف آئی آر ان کے ادارے پست کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی دباؤ میں آتے ہیں۔

اٹھئے اپنے حقوق کی خاطر اگر اب بھی آپ خاموش رہیں گے تو شاید یہ خاموشی پھر دیر پا ہو جائے ۔
جناب چانسلر جامعات اور حکومت وقت سے گزارش ہے اس لوٹ مار کو بند کیا جائے اور طلباء سے اضافی چارجز میں رعایت برتی جائے اور طلباء کو انہتائی اقدام پہ مجبور نہ کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :