حویلی کے مسائل

جمعرات 9 مئی 2019

 Zafran Haider Rathore

زعفران حیدر راٹھور

 آزاد کشمیر کا ضلع حویلی  ساحلِ سمندر سے 8 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سر سبز و  شاداب علاقہ  ہے۔حویلی بنیادی طور پہ ضلع باغ کی تحصیل تھی۔  جسے یکم جولائی 2009 میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔حویلی کا رقبہ 598 مربع کلومیٹر ہے اور یہ ضلع تین تحصیلوں پر مشتمل ہے ۔ جن میں ممتازآباد، خورشید آباد اور حویلی (کہوٹہ ٹاؤن) شامل ہیں۔ 12 یونین کونسلز اور 95 گاؤں پہ آباد اس ضلع کی آبادی 152,124  ھے۔

حویلی میں مختلف قبائل آباد ہیں۔ جو مختلف زبانیں بولتے ہیں ۔ یہاں پچپن فیصد پہاڑی، پچیس فیصد کشمیری اور بیس فیصد گوجری زبان بولی جاتی ہے۔ یہ علاقہ اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہیں۔ جہاں حویلی کے لوگ دانشور ، جفاکش، ذہین اور فطین شمار کیے جاتے ہیں وہیں حویلی کو  پسماندہ ترین ضلع بھی تصور کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ھے۔

اس دیس کے لالہ زاروں میں، ندیوں اور چناروں میں
مظلوم جبر کو روتا ہے تقدیر کا ماتم کرتا ہے
کسان بھی آہیں بھرتا ہے
تقدیر کا ماتم کرتا ہے
جب ظلم و دردی ہوتی ہے
پھر خون کی بارش ہوتی ہے
 جس دیس میں قومی جوش نہ ہو،مٹ جانے کا ہوش نہ ہو
 اس قوم کی خستہ حالی پہ پتھر بھی اشک بہاتے ہیں
 اس علاقے کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم ہے۔

ضلع حویلی میں کوالٹی ایجوکیشن کا فقدان ہے کہیں استاد موجود نہیں اور کہیں عمارت نہیں، کہیں خستہ حال عمارت تو موجود ہے لیکن استاد نہیں ۔خود میں جس سکول سے پڑھا ہوں آج بھی دیکھیے وہاں درختوں کے سائے میں طالبعلم تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ شعبہ تعلیم میں ٹھیکہ سسٹم رائج ہے۔جس کے تحت اساتذہ کرام مہینوں کے حساب سے غیر حاضر رہتے ہیں۔

  کیونکہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔  دس سال قبل میٹرک پاس لوگوں کو محکمہ تعلیم میں تعینات کیا گیا  جو اوپن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ بچوں کو سکول نہیں بھیجا جاتا ۔ والدین ان کو کم عمری میں روزگار کی تلاش میں لگا دیتے ہیں۔ کیریئر کونسلنگ نام کی کوئی شے موجود نہیں ۔ میٹرک اور ایف ایس۔سی کے طالب علم کو معلوم نہیں ہوتا اس نے آگے کیا کرنا ہے۔

تعلیمی نظام میں سیاسی مداخلت اپنے عروج پر ھے۔ حکمران اپنے ووٹرز کو ان کی مرضی کے سکولوں میں تعینات کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت آنے پر حویلی میں سب سے زیادہ سیاسی انتقام کا شکار اساتذہ کرام ھی ہوتے ہیں۔
یہاں کے باسیوں کا دوسرا بڑا مسلہ صحت اور علاج معالجے کی سہولیات ھیں۔ حویلی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال تو تعمیر ھوچکا لیکن انتہائی تشویشناک بات ھے وھاں ڈاکٹرز نہیں ، لیب میں سامان نہیں اور ادوایات تو شاید کبھی میسر نہ آسکیں۔

کیا یہی ہے حویلی  کے لوگوں کا مقدر ؟  ڈسٹرکٹ ہسپتال جانے والا ھر شخص آنکھوں میں آنسوؤں لیے لوٹتا ہے۔ جب کوئی بیمار پڑھ جاے  تو اسے باغ پہنچایا جاتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ راولاکوٹ سی ایم ایچ۔  تب تک مریض کی آدھی موت واقع ہو جاتی ہے۔
سڑکوں کی خستہ حالی کی بات کی جائے تو کوئی ایک سڑک بھی بہتر نہیں ۔حالیہ دور میں ایشیا بینک کے تعاون سے کچھ سڑکیں بنی تو ہیں۔

لیکن ان میں  کام اس معیار کا نہ ہو سکا چنانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور کرپشن کی شکایات ھیں۔ حویلی میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو پسماندہ تصور کیا جاتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں سڑکیں ہفتوں بند رہتی ہیں۔ بھیڈی کے عوام شدید برفباری میں مریض کو کندھوں پہ اٹھائے باغ کا رخ کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر  مریض راستے میں ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں ۔

لنک روڑز کے پیسے ھڑپ کر لیے جاتے ہیں ۔  لنک روڑز نہ ھونے کی وجہ سے خوبصورت علاقہ سیاحت سے محروم ہے۔
یس سی او واحد کمپنی ھے  جسے حویلی میں کمیونیکیشن کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔   کال کہیں مقدر سے مل جائے ورنہ خدا ھی حافظ ھے۔ سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کی جانب سے   کسی اور کمپنی کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں یرغمال بنی ہوئیں ھیں۔

جس روز کسی دوسری کمپنی کو حویلی میں کام کرنے کا موقع دیا جائے گا شاید اس روز حویلی کے لیے خوشی کا سماں ھو۔ اس وقت جب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے حویلی نیٹ اور کمیونیکشن کی سہولتوں سے مکمل محروم ہے اور جدید دور میں تعلیمی دوڑ میں پیچھے رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔یہاں ایک کمپنی کی اجارہ داری ہے جو نیٹ تو کیا فون سروس بھی بہتر طریقے سے فراہم نہیں کر رہی۔

اور ستم ظریفی یہ کے ہزار کوشش کے باوجود یہاں دیگر کمپنیوں کو آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
حویلی کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علاقہ  تینوں اطراف سے بھارتی فوج نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔  آئے روز کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی فوج معصوم لوگوں کو نشانہ بناتی ہے۔ لوگوں کے گھر گولہ باری کے باعث تباہ ھوکر رہ چکے ہیں ۔

شدید گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کو فرسٹ ایڈ نہیں ملتی حتیٰ کہ وہ دم توڑ جاتے ہیں۔
یہ تمام مسائل حویلی کی نااہل لیڈر شپ کی وجہ سے ھیں۔ جہنیں جھنڈی مل جائے تو پھر پانچ سال عوام کے منہ نہیں لگنا ھوتا۔ حویلی میں روایتی سیاست کو دن بدن فروغ مل  رہا ہے۔ لوگ برادری ازم اور تعصب کی وباء سے دوچار ھیں۔ ترقی کے کیے گئے وعدے ادھورے رہ جاتے ہیں۔

حویلی ایکسپریس وے تعمیر ھوئی، نہ سی ایم ایچ۔
اس کا واحد حل یہی ہےحویلی کے عوام اور بالخصوص نوجوان طبقے کو اپنے بنیادی حقوق کی آواز بلند کرنا ہوگی۔ تعصب اور برادری ازم سے باھر نکل کر اجتماعی طور پر حویلی کی تعمیر و ترقی کے لیے لڑنا ھوگا ۔ایسی لیڈر شپ کا  انتحاب کرنا جو حویلی کے لیے سود مند ثابت ھو۔ ہمیں یہ شعور ھونا چاھئے دنیا آج اکیسویں صدی میں ھے اور حویلی کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے۔ اگر ھم برادری ازم کے بت کو پاش پاش نہیں کریں گے تو پسماندگی ھمارا مقدر رھے گی۔ھم کب تک ایسے گزارہ کریں گے، کب تک خاموش رھیں گے۔ آخر کب تک؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :