شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد

اتوار 25 نومبر 2018

Zahir Mehmood

ظاہر محمود

عجب اتفاق کی بات ہے کہ جب کبھی بھی غیرنصابی سرگرمیاں ترک کر کے نصابی سرگرمیوں کو بھرپور توجہ دینے کا ارادہ کیا تو پہلے سے بڑھ کر مصروفیت میں اضافہ ہو گیا- اس ویک اینڈ پہ کچھ اسائنمنٹس مکمل کرنے کا ارادہ تھا مگر بدقسمتی کہیے یا شومئیِ قسمت کہ اچانک اینٹی نارکوٹکس فورس پنجاب کے ریجنل ڈائریکٹوریٹ سے بذریعہ کال ایک دعوت نامہ موصول ہوا، چونکہ میں پنجاب کے لیے ان کا یوتھ ایمبیسیڈر مقرر کیا گیا ہوں اس لیے ان کی طرف سے کوک فوڈ فیسٹیول کے موقع پر لیک سٹی جانے کا پروانہ دیا گیا تا کہ وہاں انسدادِ منشیات کے لیے نوجوان بچے اور بچیوں میں آگاہی کے لیے مہم چلائی جا سکے- خیر اپنی ٹیم کے ہمراہ پہلے پہل اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے اور پھر بھاگم بھاگ ٹکٹ پکڑے اور لیک سٹی میں داخل ہو گئے- داخل ہوتے ہی سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے- اتنی بڑی سطح پر فوڈ فیسٹیول کا انعقاد نیز مکمل نظم و ضبط کا مظاہرہ کبھی دیکھنے کو نہ ملا تھا- ہم حیران و پریشان بڑے بڑے برانڈز کے سٹالز دیکھتے آگے کی جانب بڑھنے لگے- جھیل کنارے کیا شہر آباد کیا گیا تھا- یوں لگ رہا تھا جیسے پورا شہر لاہور یہاں امڈا چلا آیا ہو- حالانکہ یہ تو جمعہ تھا اور پھر فیسٹیول کا پہلا دن بھی تھا، عمومی طور پر پہلے ہی دن اتنی زیادہ بھیڑ کی توقع نہ تھی- لوگ فیمیلیز کے ہمراہ طرح طرح کی اشیائے خوردونوش سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے تھے- کچھ لوگ چائے لیے جھیل کے کنارے بیٹھے اواخرِ نومبر کی ہلکی پھلکی سردی سے محظوظ ہو رہے تھے تو لاتعداد نوجوان ایک طرف کنسرٹ انجوائے کر رہے تھے- پہلے دن وقار احسن، ابرار الحق اور شہزاد رائے نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور شائقین کو زبردست تفریح مہیا کرنے کا اہتمام کیا- ہم لاہور سے باہر کے آئے ہوئے طلباء اس شاندار ماحول کے سحر سے نکلنے میں بری طرح ناکام ہو رہے تھے- ہر طرف زندگی کی رونق اور ریل پیل نے لوگوں کے چہروں پہ شگفتگی کے آثار نمایاں کر دیے تھے- یہ پہلا دن تھا، ہمیں جلد ہی واپس ڈائریکٹوریٹ بھی جانا تھا سو دس بجتے ہی دوبارہ آنے کا ارادہ کیا اور واپسی کے لیے باہر نکل آئے- ہمیں ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہماری آنکھیں کیا دیکھ رہی تھیں اور ہماری حواسِ خمسہ کس قدر مسحور تھیں- بہرحال سارے ہی اس خوبصورت تجربے کی حسین یادیں سنتے سناتے رات بارہ ایک بجے واپس پہنچے-
دوسرے دن بھی وہیں جانے کا ارادہ تھا مگر ایک معروف نجی چینل نے الحمرا مال روڈ میں منعقدہ فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کی کوریج کی ذمہ داری لگا دی- لیک سٹی کے رنگا رنگ نظاروں کے چھوٹ جانے کا افسوس لیے الحمرا پہنچے تو کیا دیکھا یہاں تو ایک اور ہی الگ جہان آباد ہے- اتنا ہجوم کے تل دھرنے کی جا نہیں مل رہی تھی- یہاں فوڈ سٹالز کے ساتھ ساتھ بک سٹالز بھی لگے ہوئے تھے- ایک طرف موسیقی کے پروگرامز ہو رہے تھے تو دوسری طرف قومی و عالمی شخصیات کے ساتھ بیٹھکوں کا انعقاد کیا گیا تھا- دیدہءِ حیراں کبھی ادھر دیکھوں تو کبھی ادھر- کچھ سمجھ نہ آئے کہاں سے کتابیں دیکھنا شروع کروں، آیا پہلے کتابیں دیکھوں یا سیشنز میں شریک ہوؤں- ہر علاقے شہر، ذات پات، رنگ نسل کے لوگ وہاں موجود تھے- مسکراہٹیں بکھیری جا رہی تھیں، قہقہے لگائے جا رہے تھے- ہر طرف امن و محبت کا دور دورہ تھا- الحمرا آرٹ کمپلیکس کھچا کھچ بھرا ہوا تھا- میں کافی دیر تک وہاں گھومتا رہا، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، ہر پیشے اور شعبے کے لوگ وہاں موجود تھے- مختلف ٹولیاں مختلف ہنر پیش کرنے میں پیش پیش تھیں- اچانک میرا دل کسی اچھے سے کیفے سے چائے پینے کو کیا سو مال روڈ پر بشیر سنز کے بالکل سامنے کھلنے والے نئے کیفے یوفوریا پر چلا آیا-
میں بہت خوش تھا- طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی تھی- اگرچہ نصاب سے متعلق کچھ نہ کیا مگر دل پرسکون تھا، آخر کو میں وہ زندگی جی کر آ رہا تھا جس کی خواہش دماغی و جسمانی طور پر آزاد ہر انسان کو ہوتی ہے- ابھی سنبھل کر بیٹھا بھی نہیں تھا کہ مذکورہ چینل کی ایک ٹیم نے "پِلاک" قذافی سٹیڈیم پہنچنے کا کہا- دراصل انہیں وہاں کسی اور میلے کی کوریج کے لیے آلات چاہییں تھے- خیر بھاگم بھاگ چائے کے گھونٹ پیے اور قذافی سٹیڈیم کی طرف نکل پڑا- رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے- سڑکوں پر بے تحاشا گاڑیاں اور ہجوم دیکھنے کو ملا- مجھے انارکلی سے قذافی پہنچتے پہنچتے اچھا خاصا وقت لگا- بہرحال جب وہاں پہنچا تو مارے حیرت کے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں- ایک اور بڑا فیسٹیول پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھا- میرے داخل ہوتے ہیں ایک دوست نے بتایا کہ یہاں کوئی بہت بڑا گلوکار آیا ہوا تھا جسے میں نے مِس کر دیا نیز اس نے یہ بھی بتایا کہ آج تو اتنا رقص کیا کہ لوگ ناچ ناچ کے پاگل ہو گئے- اطراف سے طرح طرح کے کھانوں کی خوشبوئیں آ رہی تھیں- یہ فیسٹیول یاماہا والوں کی طرف سے منعقد کرایا گیا تھا-
ایک انسان ایک دن میں حیرت کے اتنے ہی جھٹکے برداشت کر سکتا ہے- ایک ہی دن میں لاہور میں مختلف مقامات پر تین اتنے بڑے فیسٹیولز کا بھرپور اور کامیاب انعقاد اس بات کی ضمانت ہے کہ پنجاب کے دل لاہور میں امن اور محبت کی جیت ہو گئی اور دہشت اور شدت پسندی ہار گئی- ہر میلے پہ یوں لگا جیسے سارا لاہور ادھر ہی آ گیا ہو- یہ زندہ دالانِ لاہور کی زندہ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے- ان زندہ دالان لوگوں نے باہر سے آئے لوگوں کے دلوں کو بھی جِلا بخش دی ہے- اب جو بھی اس فضا میں آتا ہے، امن و آشتی کا پرچارک بن جاتا ہے- ایک لمبے عرصہ بعد لاہور میں زندگی اور امن و محبت کو یوں بانہوں میں بانہیں ڈالے رقص کناں دیکھا- یوں تو لاہور کافی عرصہ سے ایک پرامن اور محفوظ شہر ہے مگر میڈیا نے محدود سوچ کو اپناتے ہوئے باہر سے آنے والوں کے دلوں میں ایک خوف کی لہر کو جنم دے دیا ہوا ہے مگر آپ لاہور آئیے اور خود اپنی آنکھوں سے اس شہرِ محبت میں تہذیب و ثقافت کے بکھرتے رنگوں کا نظارہ کیجیے اور لطف اٹھائیے-
خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر۔

۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :