کرپشن آپٹکس

جمعرات 27 جنوری 2022

Zainab Abdur Rehman

زینب عبدالرحمن

تم کرپٹ ہو! وہ کرپٹ ہے! وہ سب کرپٹ ہیں! نہیں، یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کاتعلق عدالتی نظام سے ہو '' ہو سکتا ہو ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مسلہ ہو ،دنیا بھر میں بدعنوانی کی صورتحال پرمبنی ایک اور بین الاقوامی رپورٹ پاکستان کو پچھلے سال کی درجہ بندی کے ذریعے سولہ پوائنٹس نیچے لے آئی۔ اپوزیشن کی آپٹکس اسے حکومت کی ناکامی قرار دے رہی ہے اور حکومت یقینی طور پر اس کا دفاع کر رہی ہے۔

اسی طرح یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ متنازعہ، ''ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل رپورٹ'' کو سمجھیں اور یہ کہ اس کی درجہ بندی کیسے بنتی ہے۔ الزام تراشیوں کی آڑ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ درجہ بندی کے طریقہ کار کو سمجھیں اور پھر صحیح اور غلط کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کریں۔

(جاری ہے)

اطلاعات و نشریات کے وزیر نے جب کہا کہ ریٹنگ میں ''مالی بدعنوانی'' کے علاوہ دیگر مسائل نئی رینکنگ کی وجہ ہے، تو وہ درست تھے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس شامل ہے۔ انڈیکس بنانے میں مختلف اداروں سے حاصل کردہ معلومات سے نتائج اخذ کرنے کا عمل شامل ہوتا ہے۔ ان اداروں میں ورلڈ بینک اور ورلڈ اکنامک فورم بھی شامل ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے رہنما اصو لو ں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے کوئی بھی ڈیٹا تیار یا اکٹھا نہیں کیا جاتا ہے، یہ کسی ملک کے پبلک سیکٹر کی بدعنوانی کا اندازہ لگانے کے لیے لیا جاتا ہے۔

پریکٹس کا بنیادی مقصد کسی ملک کے سرکاری اور نجی شعبے کی صورتحال میں فرق کرنا ہے۔2021 CPI نے پاکستان کو 100 میں سے 28
کا اسکور دیا ہے، جہاں 100 بہتر یا بدعنوانی سے پاک کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال 2020 میں، پاکستان نے 31 اسکور حاصل کیا اور وہ کل 180 ممالک میں 124 نمبر پر تھا۔ جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل واضح طور پر کہتی ہے کہ اس کے زوال کی وجہ ''قانون کی حکمرانی'' اور ''اقربہ پروری ہیں '' ۔

ٹر انسپر نسی انٹر نیشنل نے قانو ن کی حکمر انی کی تشریح کچھ یو ں کی ہے کہ ایسا نظام کو ملکی ڈھا نچے کا حصہ بنا یا جا ئے ۔'' پاکستان کے بڑے بڑے ماہرین معاشیات اور ماہرین کی طرف سے جب بھی کرپشن پر بات کی جاتی ہے تو ساختی خامیوں زیا دہ زیر ہ بحث آتی ہیں ۔ ملک کو شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہیں، حالیہ واقعات جن میں سری لنکن شہری پر ہجوم کا تشدد بھی شامل ہے، دنیا کے سامنے ہم سب کے حقیقی چہرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

قانون کی حکمرانی میں زمینی قانون کی اطاعت اور احترام شامل ہے۔ ہم سب اس کے ناقص نفاذ اور کم اسکور میں اضافے کے ذمہ دار ہیں۔
ٹرانسپر نسی انٹر نیشنل کے انسداد بدعنو انی ڈیسک نے ریاستی اداروں کی جانب سے ریاستی عملداری پر کمزور پڑتی گرفت پر بھی کھل کر اظہار کیا ہے۔ جہاں کمپنیاں، ادارے یا طاقتور افراد بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں جیسے کہ قوانین کو اپنے تابع کرنا، ترامیم، حکمنامے یا سزائیں، نیز سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی غیر قانونی شراکت، اثر و رسوخ اور شکل دینے کے لیے ایک ملک کی پالیسی، قانونی ماحول اور معیشت کے معاملا ت اس کے مطابق ہوں ، وغیرہ شامل ہیں۔

ریاست کی گرفت اس اصول کی وضاحت کرتی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جو کہ پاک سرزمین میں عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے۔ موجودہ حکومت کی مسلسل کوششیں اتنی کامیاب ثابت نہیں ہوئی ہیں لیکن موجودہ وزیر اعظم کی بدعنوانی کے بحران کو حل کرنے کا عزم اور ان کے عزم سے وابستہ امید اب بھی قائم ہے۔بدعنوانی پرسیپشن انڈیکس کے لیے بدعنوانی کے اشاریے ہمیشہ ملک میں بدعنوانی کی حقیقی صورتحال سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔

ٹیکس فراڈ، بدعنوانی کے بارے میں شہریوں کا تصور، منی لانڈرنگ، نجی شعبہ جات کی بدعنوانی، غیر رسمی معیشتوں اور وکلاء، اکاؤنٹنٹ اور مالیاتی مشیروں سمیت بدعنوانی کے سب سے اہم عوامل سمیت کچھ بڑے عوامل بھی شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم پر سپیشن انڈیکس مین ان تما م عوامل کو اسکو ر میں شامل ہی نہیں کر تے ۔ بدعنوانی کو روکنے کے لیے موجودہ حکومت کی کوششیں زیادہ تر ٹیکس فراڈ، منی لانڈرڈ اور عوامی شکایات کو دور کرنے کے لیے سٹیزن پورٹل جیسے اداروں کی تشکیل پر مرکوز تھیں۔

آخر میں ہم اس خیال پر متفق ہو سکتے ہیں کہ بدعنوانی کی پیمائش اور تشخیص صرف ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ کے ذریعے نہیں کی جا سکتی۔ اگرچہ پاکستان کو بدعنوانی کی لعنت پر قابو پانے کے لیے بہت طویل سفر طے کرنا ہے، اصلاحات کی درحقیقت اشد ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :