معصوم جانوروں کا قتل عام‎

بدھ 5 اگست 2020

Zeeshan Noor Khilji

ذیشان نور خلجی

ہیلو ! میری کرسمس۔ تمام عیسائی بھائیوں کو یسوع کی پیدائش مبارک ہو۔ پانچ دن گزر چکے ہیں اور نئے سال کی آمد آمد ہے۔ مجھے اپنے دوستوں کو نیو ائیر نائٹ بھی وش کرنی ہے۔ کتنا خوبصورت تہوار ہے یہ۔ ساری رات ہلا گلا، موج مستی، شراب، کباب اور شباب۔ خوب انجوائے کرو۔ آدمی کو ایسے ہی زندگی گزارنی چاہئیے بلکہ زندگی کے ہر ہر موقعے کو ایسے ہی انجوائے کرنا چاہئیے۔

بھلا یہ وقت پھر کب آئے گا۔
ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے۔ آج چودہ فروری ہے جسے سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مجھے تو یہ تہوار بڑا ہی اچھا لگتا ہے۔ ہمیں موقع ملتا ہے اپنے گرل / بوائے فرینڈ کے ساتھ وقت گزارنے کا۔ ان سے اظہار محبت کرنے کا۔ تحفے تحائف کے تبادلے کا۔ لہذا میں سرخ لباس زیب تن کرتا ہوں اور اپنی فرینڈ کے ساتھ وہ سب کچھ کرتا ہوں جس کی خواہش ایک صحت مند مرد اور عورت کو ہمیشہ سے رہتی ہے۔

(جاری ہے)


اچھا، تو آپ کی کمی تھی۔ دیکھیے دوستو ! یہ مجھے بھاشن دینے آ گئے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے سراسر بے حیائی ہے۔ یہ مغرب کا تہوار ہے۔ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں نے بھی جواباً پھبتی کسی ہے آپ حیاء ڈے منائیں نا۔ ہونہہ، فضول لوگ پتا نہیں کہاں کہاں سے منہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔
میں آگے بڑھتا ہوں اپریل کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ موسم بہار کی آمد آمد ہے۔

ایسٹر کا تہوار آ گیا ہے۔ تمام عیسائی دوست ایسٹر کو سیلیبریٹ کرتے ہوئے کتنے بھلے لگتے ہیں۔
اب دو دن بعد خالصہ کے استحکام کا دن بھی آ گیا ہے۔ جی ہاں، آپ ٹھیک سمجھے۔ آج بیساکھی ہے۔ میں بھی ضرور دریا نہاؤں گا۔ بے شک یہ سکھوں کا مذہبی تہوار ہے لیکن آخر کو میں بھی تو پنجابی ہوں تو مجھے بھی اس کو منانے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ یہ دقیانوسی سوچ والے اعتراض کر رہے ہیں کہ بیساکھی میں ہر سال بیسوں لوگ دریا برد ہو جاتے ہیں۔

تو بندہ پوچھے، اس میں بھلا بیساکھی کا کیا قصور۔ نہ لاپرواہی کریں اور نہ ڈوبیں۔
گو بیساکھی کے بعد اور بھی تہوار گزرے ہیں جیسا کہ ہولی، دوسہرا وغیرہ۔ لیکن ان پر پھر کبھی لکھوں گا آج عید الاضحیٰ کی بات کرتے ہیں۔ دوستو ! سچ کہوں تو مجھے اپنا یہ تہوار بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ اب یہ بھی کوئی تک ہے کہ اربوں روپے جانوروں اور ان کے لوازمات پہ فضول میں اڑا دو۔

اگر قوم کا یہی پیسہ کسی جگہ انویسٹ کیا جاتا تو سوچیے کتنے پیسوں کی بچت ہو سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اگر آپ پیسوں کو عوامی فلاح کے لئے ہی خرچ کرنا چاہتے ہیں تو بھی پاکستان میں قریباً ایک کروڑ لڑکیاں غربت کی وجہ سے شادی کی عمر سے گزری جا رہی ہیں۔ تو آپ کے یہ پیسے ان کے ہاتھ پیلے کر سکتے تھے۔ اور اس کے علاوہ بھی معصوم جانوروں کو یوں بے دردی سے قتل کرنا، انہیں کاٹنا پھاڑنا، بھلا کہاں کا انصاف ہے۔

ان لوگوں کو ذرا بھی رحم نہیں آتا جو اسلام اور انسانیت کے علمبرادر بنے ہوئے ہیں۔ بھئی میں تو عید قربان کے موقع پر بالکل بھی قربانی نہیں کرتا۔ مجھ سے معصوم جانوروں کا قتل عام نہیں دیکھا جاتا اور لال لال خون سے تو ویسے بھی میرا کلیجہ کٹنے لگتا ہے۔ ہاں، ویسے آپس کی بات ہے کرسمس، ایسٹر، نیو ائیر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے وغیرہ پر میں لیکن گوشت مزے لے لے کر کھاتا ہوں۔

بلکہ دنیا کی بڑی بڑی فوڈ چینز جیسا کہ میکڈونلڈ اور کے ایف سی وغیرہ بالواسطہ طور پر میرے ہی دم سے آباد ہیں۔ لیکن عید قربان پر جانوروں کے ذبیحہ کے میں پھر بھی خلاف ہوں۔
بلکہ میرا ماننا ہے یہ جو پاکستان میں گوشت کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث کھوتا گوشت متعارف کروایا گیا ہے اس میں بھی کہیں مجھ جیسے خوش خوارک گوشت خوروں کا ہی ہاتھ ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں کیوں ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہوں تو آپ کو بتاتا چلوں کہ کھوتا کھانے کی وجہ سے میری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :