تعصب کے سیاہ چشمے سے سچ کی سفیدی ماند پڑ جاتی ہے

بدھ 2 ستمبر 2020

Zubair Bashir

زبیر بشیر

عالمی انتظام و انصرام کے پرامن انداز میں چلانے کے لئے بین الاقوامی برادری نے چند سنہرے اصول وضع کیے ہیں۔ جن کے مطابق ریاستوں کے باہمی تعلقات برابری، باہمی احترام اور عدم مداخلت کی بنیاد پر قائم ہونے چاہییں۔ ہر ملک خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ یہی بقائے باہمی اور بنی نوع انسان کی ترقی کا مشترکہ راستہ بھی ہے۔

تاہم ماضی قریب میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں کچھ ممالک اپنے درپردہ مقاصد کے حصول کے لئے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ چین کے سنکیانگ اور ہانگ کانگ سے متعلق بھی ہے۔ چین کی پرامن ترقی کا راستہ روکنے کے لئے چند مغربی میڈیا اور سیاستدان اس حوالے سے افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)


چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے سنکیانگ اور ہانگ کانگ کی صورت حال واضح انداز میں پیش کی۔ انہوں نے ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قانون کا جواز بیان کیا۔ اس کے علاوہ سنکیانگ کی ترقی اور وہاں بنیاد پرستی کے خاتمے میں حاصل ہونے والی مثبت کامیابیوں کو متعارف کروایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ چینی حکومت کی جانب سے اختیار کی جانے والی پالیسیوں سے ہم وطنوں کو فائدہ پہنچا ہے۔

چین میں تمام قومیتیں اعلیٰ درجے کی خود اختیاری سے لطف اندوز ہور ہی ہیں۔ انہوں واضح کیا کہ کسی بھی سوال سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سوال کرنے والا چین کے اقتدار اعلیٰ کا احترام کرتا ہے اور چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اپنے جواب میں جناب وانگ ای نے تین نکات پر روشنی ڈالی، پہلا ، ممالک کے مابین تبادلہ خیال کے دوران ، باہمی احترام اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اصول برقرار رکھنا چاہئے۔

یہ بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی اصول ہے اور یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا ضابطہِ اخلاق بھی ہے۔ دوسرا ، چین کے امور کا مشاہدہ اور تبصرہ کرتے ہوئے ، ہمیں حقائق سے آگاہ ہونا چاہئے ۔ ہمیں افواہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اورغیر متعصبانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ تیسرا ، چین سنکیانگ میں 90 سے زائد ممالک کے وفود کو مدعو کرچکا ہے۔ مختلف سیاسی حیثیتوں سے تعلق رکھنے والے ان مندوبین میں سے سب کا یہ اتفاق تھا کہ سنکیانگ کے بارے میں جو انہوں نے سنا تھا سنکیانگ کو اس کے برعکس پایا۔

چین آج بھی نئے دوستوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔
کسی بھی ملک کی داخلی یا خارجہ پالیسی کا تجزیہ کرتے وقت تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہیے اور رائے کا اظہار کرتے وقت اس ملک کے اقتدار اعلیٰ کے احترام کو مدنظر رکھنا چاہیے۔چین کا ایک محاورا ہے کہ دوستی ہمیشہ  یک طرفہ نہیں ہوتی۔ چین اور امریکہ کے درمیان اس وقت جو صورت حال بن رہی ہے چین کسی طرح بھی اس کا خواہاں نہیں لیکن چین خاموش رہ  کر غاصبانہ سوچ کی حامل قوتوں کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرنا چاہتا۔

چین اپنے تئیں تمام کوششیں کر چکا ہے اب امریکہ کو آگے بڑھ صورت حال کی بہتری کے لئے سنجید گی دکھانا ہوگی۔ ۔ چین کوئی تنازعہ پیدا کرنے کے لیے کبھی کوئی پہل نہیں ۔ چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کو سبوتاژ کرنے والی کارروائیوں کا ڈٹ کرمقابلہ کرے گا۔
اس وقت امریکہ کے " نئی سرد جنگ " کے تصور سے چین کے بیرونی ماحول میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں ۔

اس کے تناظر میں چین کو کیا کرنا چاہیئے ؟ تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایک طرف امریکہ کے ساتھ مناسب رد عمل کے علاوہ چین میں اصلاحات اور کھلے پن پر عمل جاری رکھا جا نا چاہیئے ۔ سب جانتے ہیں کہ چین میں آج کی نمایاں ترقی اور پیش رفت ، قومی طاقت میں تیزی سے اضافہ اور بڑھتے ہوئے بین الاقوامی اثر و رسوخ یہ سب اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔

کوئی بھی طاقت ایک مستحکم اور مضبوط چین کو شکست نہیں دے سکتی۔ اور دوسری طرف عالمی سطح پر چین دوسرے ممالک کے ساتھ ہم نصیب معاشرے کے قیام کے لیے بھر پور کوشش کرے گا ۔ تمام ممالک کو کسی بھی طرح کی یکطرفہ اورجبری کارروائیوں کے خلاف مزاحمت اور عالمی امن و ترقی کی مجموعی صورتحال کا دفاع کرنے کے لئے کام کرنا ہو گا ۔حقائق نے ثابت کر دیا ہے کہ زمانے کی ترقی کے رجحان کے دھارے کے برعکس کوئی بھی غیر مقبول عمل پائیدار نہیں ہو سکتا ، امن اور تعاون یقیناً زمانےاور عوام کا انتخاب ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :