ڈاک کا جدید نظام ملکی ترقی میں معاون

منگل 29 دسمبر 2020

Zubair Bashir

زبیر بشیر

جن دنوں ہم چھوٹے تھے ایک نظم زبان زد خاص و عام ہوا کرتی تھی، "ڈاکیا آیا ڈاک لایا"۔ آج بھی شاید یہ نرسری اور پلے گروپ میں بچوں کویاد کروائی جاتی ہو۔ گزشتہ صدی کے اختتام اور موجودہ صدی کے ابتدائی عشرے تک ڈاکیا کسی وی آئی پی سے کم نہ تھا۔ اہم تہواروں اور امتحانی تنائج کے دونوں میں تو ڈاکیے کا انتظار اور اس کی  اہمیت مزید بڑھ جایا کرتی تھی۔

پھر رفتہ رفتہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی نے نظام ڈاک کی اہمیت کو کم کردیا۔ ڈاک کے نظام  کا استعمال محض اہم دستاویزات کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل رہ گیا۔
چین میں قدیم نظام ڈاک اور جدید ٹیکنالوجیز کے حسین امتزاج نے ڈاکیے کو ایک بار پھر نئی زندگی عطا کر دی ہے۔ یہاں اب اسے "کورئیر بوائے" کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

چین میں ان کی تعداد اب ہزاروں میں ہے یہ کورئیر بوائے سردی اور گرمی کی پروا کئے بغیر روزانہ لاکھوں کورئیر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔

محض سال 2020 کے دوران چین میں 70 ارب کورئیر ایک جگہ سے دوسری جگہ ارسال کئے گئے جو ان کورئیر بوائز کی مدد سے ممکن ہوا۔
ایسے وقت میں جب عالمی معیشت شدید کساد بازاری کا شکار ہے ، چین کی ایکسپریس انڈسٹری کی کارکردگی خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہ عالمی بحالی میں چین کے کردار اور بڑھتی ہوئی گھریلو مانگ کی عکاس ہے۔ چین میں کام اور پیداوار کی تیز رفتار بحالی اور صارفین کی منڈی میں آن لائن اور آف لائن نظام کے انضمام کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے ایکسپریس انڈسٹری میں اضافے ہوا ہے۔

چین میں سامان کی مانگ اور فرہمی کے درمیان توازن قائم رکھنے میں ایکسپریس صنعت نے معاون کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ایک سرے پر صارف اور دوسرے سرے پر پید کنندہ موجود ہے۔ درمیان میں تیزرفتار ٹرک، ہوائی جہاز، بحری جہاز اور اپنی الیکٹرک گاڑیوں اور سائیکلوں پر گھومتے پھرتے  یہ کورئیر بوائز شامل ہیں۔ جو طویل اور شدید موسم سے گھبرائے بغیر ملکی ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔


یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایکسپریس انڈسٹری نے چین کے نظام ڈاک کو ایک جدید شکل دے دی ہے۔ بڑے پیداواری اداروں، خرید و فروخت کے آن لائن پلیٹ فارموں اور کورئیر کمپنیوں نے مل کر ایک شاندار نظام ترتیب دیا ہے۔ جس سے ایک ارب چالیس کروڑ کی صارف منڈی بھرپور انداز میں مستفید ہو رہی ہے۔ اس شانداز نظام کی خوبیاں ہم ڈبل الیون سمیت بہت سے تہواروں پر دیکھ چکے ہیں۔

جب محض چن منٹ میں اربوں یوآن کی خریداری کی گئی۔
حالیہ برسوں کے دوران ، چین کی ایکسپریس انڈسٹری کو دنیا میں ایک کامیابی کی کہانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، نہ صرف اس حقیقت کی وجہ سے کہ اس طرح کا پیمانہ دنیا میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ  ہے کہ یہ صنعت اک دن میں 200 ملین پارسل ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکتی ہے۔

محض چین کی ایک کورئیر کمپنی ایس ایف کورئیر سال 2019 میں 1400 ٹن وزنی  پارسلز اپنے 38 بوئنگ طیاروں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کررہی  تھی۔ اس ادارے کے پاس موجود  طیاروں میں سترہ  B737 سولہ B757  اور پانچ B767  طیارےشامل ہیں۔ آج اس کمپنی میں ایک لاکھ بیس ہزار کارکن، تیرہ ہزار آفیسرز، ایک لاکھ پچاس ہزار گاڑیاں اور چھتیس طیارے ہیں۔چین کی کورئیر انڈسٹری کی ترقی  ڈیجیٹل  اور انٹیلجنٹ ترقی کی مرہون منت ہے۔

  جدید ٹیکنالوجی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چین  لاجسٹکس انڈسٹری کو عہد حاضر میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں مزید مدد فراہم کررہا ہے۔
وبا کی وجہ سے موجودہ سال لاجسٹکس انڈسٹری کے لئے ، ایک خاص سال اور اہم سال بھی ہے۔ رسد کی صنعت نے نہ صرف وبائی امراض کی روک تھام اور کنٹرول میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ، بلکہ اس نے صنعتی چین کی فراہمی کا سلسلہ مستحکم کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

مزید یہ کہ اس نے بحران کو ایک موقع کی حیثیت سے تبدیل کردیا ہے اور ترقی کے مواقع کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ 
پاکستان جہاں محکمہ ڈاک کا انفراسٹرکچر دیہات کی سطح تک موجود  ہے۔ اس کو نئی ٹیکنالوجیز سے اہم آہنگ کرتے ہوئے ملکی ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مدد سے چھوٹی صنعتوں اور صارفین کے درمیان رابطے کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے چین کے تجربات سے استفادہ کر سکتا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :