نوول کورونا وائرس کے ماخذ کی تلاش سائنسی عمل ہے یا سیاسی؟

جمعہ 23 جولائی 2021

Zubair Bashir

زبیر بشیر

چند مغربی ذرائع ابلاغ میں  گزشتہ مہینے سے ایک بار پھر ایک شور اٹھا ہے کہ نوول کورونا وائرس لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس حوالے سے ایک طوفان برپا کردیا گیا ہے۔ حالانکہ گزشتہ برس موسم بہار میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے سائنسی بیانیے سے اتفاق کرتے ہوئے یہ رپورٹیں نشر اور شائع کی تھیں کہ سابقہ سارس اور میرس وائرس کی طرح کووڈ-19 وائرس بھی قدرتی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔

 
 وائرس کے انسانوں کی جانب سے تیار کئے جانے کے حوالے سے دو انتہائی کمزور دلائل پیش کئے جاتے ہیں پہلا یہ کہ نوول کورونا وائرس جانوروں میں ہی پیدا ہوتا ہے تاہم ووہان وائرلوجی لیب میں ایک چمگادڑ پر تحقیق کے دوران یہ وائرس حادثاتی طور پر اس لیب سے انسانوں میں داخل ہوگیا۔

(جاری ہے)

دوسرا نظریہ  یہ ہے کہ لیبارٹری میں نوول کورونا وائرس پر تحقیق کے دوران وائرس کی جینیاتی ساخت میں کچھ  تبدیلیاں واقع ہو گئی اور انہوں نے اسے اتنا طاقتور بنادیا کہ اس نے انسانوں میں منتقل ہو کر تیزی سے تباہی پھیلا دی۔


عالمی ادارہ صحت کے ماہرین پر مشتمل عالمی تحقیقی ٹیم پہلے ہی ووہان وائرلوجی لیب سمیت ووہان کے متعدد مقامات کا دورہ کر کے اپنی تحقیقی رپورٹ شائع کر چکی ہے جس میں اس طرح کے تمام امکانات اور نظریات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کے لیبارٹری میں تیاری یا اخراج کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستانی اخبار دی نیشن کے مطابق ،چین کے  سائنسی تحقیقی رسالے"سائنس چائنا لائف" میں حالیہ دنوں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  چینی محققین کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ نوول کورونا وائرس قدرتی طور پر پیدا ہوا ہے۔

اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں کہ یہ وائرس مصنوعی طور پر لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2003 کے سارس وائرس کے مقابلے میں موجودہ کووڈ-19 وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ اس وائرس کو کسی لیبارٹری یا مارکیٹ سے انسانوں میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایا گیا ہو۔

محققین کے مطابق وائرس کی ساخت کے مطالعہ سے بھی یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ اسے انسانوں کی جانب سے نہیں بنایا گیا۔
چین میں عوامی سطح پر جاری ایک  انٹرنٹ مہم میں 21 جولائی کی سہ پہر تک ، تقریباً 5 ملین چینی نیٹیزین نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں ڈبلیو ایچ او سےامریکہ کی فورٹ ڈیٹرک بائیولیب کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بڑھتی ہوئی تعداد چینی عوام کی امنگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔نوول کورونا وائرس کا سراغ لگانے کے امور میں سیاست کرنے کی امریکی کوشش کے خلاف یہ چینی عوام کے غم و غصے کا اظہار ہے۔فورٹ ڈیٹرک بائیولیب کی تفتیش کرنا چینی عوام سمیت تمام ممالک کے لوگوں کی آواز ہے اور یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب امریکہ کو  دینا ہوگا۔
اس وبا کی وجہ سے اپنے ملک میں تقریباً 630،000 جانیں ضائع ہونے کے تناظر میں ، امریکہ کو شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ملک میں اس وباء کے منبع کی مکمل تحقیقات کے لئے مؤ ثر اقدامات اختیار کرنا چاہئیں، امریکی میں انسداد وبا کی نا اہلی کی وجوہات کی مکمل تحقیقات کرنی چاہئیں۔

فورٹ ڈیٹرک بائیولیب اور دوسرے ممالک میں امریکہ کی 200 سے ایسی لیبز کی پوری طرح سے تفتیش کی جانی چاہیے  اور دنیا کے عوام اور بین الاقوامی برادری کو ایک واضح جواب دینا چاہیے۔
ڈبلیو ایچ اونے حال ہی میں نوول کورونا وائرس کے سراغ سے متعلق "ورک پلان"کے دوسرے مرحلے کی تجویز پیش کی ہے ، جو چین سمیت متعدد ممالک کے موقف سے متصادم ہے۔ تاحال 55ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل سے تحریری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر وائرس کا سراغ لگایا جائے اور وائرس پر سیاست سے گریز کیا جائے۔

چین وہ پہلا ملک تھا جس نے ڈبلیو ایچ او کو بروقت نوول کورونا وائرس کی اطلاع دی اور وائرس سراغ کے معاملے پر چین نے ہمیشہ کھلا اور شفاف رویہ اپنایا ہے۔ چین نے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو وائرس سے متعلق تحقیق اور سراغ کے لیے دو مرتبہ چین مدعو کیا ہے۔ دونوں فریقوں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے حتمی نتائج اور سفارشات کا احترام کیا جائے اور اسے برقرار رکھا جائے۔

دوسری جانب امریکہ وبا سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے ۔امریکہ وبا سے متاثرہ مصدقہ مریضوں اور ہلاکتوں کے اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے لہذا دوسرے مرحلے میں وائرس سراغ اور تحقیق سے متعلق امریکہ کو مرکزی نقطہ ہونا چاہیے۔جولائی 2019 میں ملک میں حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی سب سے بڑی بیس "فورٹ ڈیٹرک بائیولیب" کے اچانک بند ہو جانے سے  اسی عرصے کے دوران نامعلوم "ای سگریٹ مرض" کے پھیلاو  تک،  امریکی انسداد امراض مرکز کے حکام نے خود نشاندہی کی ہے کہ نوول کورونا وائرس دسمبر 2019 کے اوائل میں ہی امریکہ میں پھیل چکا تھا۔

دنیا میں متعدی امراض کے شکار رہنے والے اکثر ممالک ایسے بھی ہیں جہاں 200 سے زائد امریکی حیاتیاتی لیبارٹریز واقع ہیں ۔حالات و واقعات لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر رہے ہیں کہ   امریکی حکومت "ناقابل بیان راز" پر پردہ ڈال رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آزاد میڈیا اور زیادہ سے زیادہ ممالک بشمول جنوبی کوریا ، اسپین ، یوکرین وغیرہ میں لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ہی میں وائرس کی کھوج کی جائے۔ امریکہ کو بین الاقوامی برادری کی آواز کا جواب دینا چاہئے اور خود کو عالمی  تحقیقات کے لیے پیش کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :