مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مزید 2 کشمیری شہید‘ شہادتوں کی تعداد 43 ہوگئی

اخبارات کی اشاعت پر تین روز کیلئے پابندی لگا دی گئی‘اخبارات کے دفاتر پرچھاپے مار کرکاپیاں تحویل میں لے لی گئیں وادی میں 9 روزسے انٹرنیٹ اورموبائل فون کی سہولت بند ‘کرفیوکی وجہ سے کئی علاقوں میں اشیائے خورد ونوش کی قلت سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور شبیر شاہ سمیت درجنوں حریت رہنما گھروں میں نظر بند

اتوار 17 جولائی 2016 12:16

سری نگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔17 جولائی ۔2016ء) مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مزید 2 کشمیری شہید ہوگئے ہیں جس کے بعد 8 جولائی سے اب تک جام شہادت نوش کرنے والے کشمیریوں کی تعداد 43 ہوگئی ہے۔بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے اخبارات کی اشاعت پر تین روز کیلئے پابندی لگا دی ہے جبکہ اخبارات کے دفاتر پر چھاپے مار کر کاپیاں تحویل میں لے لیں۔

کشمیرمیڈیا سیل کے مطابق مقبوضہ کشمیرکے ضلع کپواڑا کے علاقے لولاب میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے مشتاق احمد گنائی نامی نوجوان شہید ہوگیا جب کہ کلگام کے علاقے یاری پورہ میں بھارتی فوج نے ایک پرامن مظاہرے پرفائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان شہید جب کہ متعدد زخمی ہوگئے ، شہید ہونے والے نوجوان کی شناخت سیار احمد کمار کے نام سے ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

وادی میں گزشتہ 9 روزسے انٹرنیٹ اورموبائل فون کی سہولت مکمل طورپربند ہے جب کہ کرفیوکی وجہ سے کئی علاقوں میں اشیائے خورد ونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور شبیر شاہ سمیت درجنوں حریت رہنما گھروں میں نظر بند ہیں۔واضح رہے کہ 8 جولائی کو بھارتی فوج نے معروف حریت پسند نوجوان برہان وانی کو شہید کردیا تھا جس کے بعد وادی میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

پرامن مظاہرین پرفائرنگ کے نتیجے میں اب تک 43 افراد شہید جب کہ 2 ہزار سے زخمی ہوچکے ہیں۔حکومت نے وادی میں اخبارات کی اشاعت پر تین روز کیلئے پابندی عائد کر دی ہے جبکہ کرفیو کی مدت مزید آٹھ روز کیلئے بڑھا دی گئی ہے۔اخبار کے مدیران کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اخباروں کی اشاعت پر پابندی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورتحال کس قدر کشیدہ ہے۔سری نگر سے نکلنے والے ایک اخبار کے مدیر شجاعت بخاری کا کہنا ہے کہ اخباروں کی اشاعت پر پابندی پریس ایمرجنسی لگانے کے مترادف ہے، ایسا تو 2008 اور 2010 کے مظاہروں میں بھی نہیں ہو اتھا۔