اپوزیشن کا نئے صوبے سے متعلق حکومتی ارادے پر شکوک وشبہات کا اظہار

انڈے اور مرغی کی حکومت کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا، خاص طور پر جب حکمران اتحاد اس معاملے پر متفق نظر نہیں آتا ،ْ مشاہد اللہ خان معاملے پر پنجاب حکومت کی جانب سے بنائے گئے مشاورتی کونسل سے اپوزیشن کو نکالنے سے پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوگئی ،ْپی پی رہنما

پیر 3 دسمبر 2018 21:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 دسمبر2018ء) اپوزیشن جماعتوں نے حکمران جماعت کی جانب سے نئے صوبے کے قیام سے متعلق ارادے پر شکوک و شبہات کا اظہار کردیا۔نجی ٹی وی کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے کہا کہ انڈے اور مرغی‘ کی حکومت کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا، خاص طور پر جب حکمران اتحاد اس معاملے پر متفق نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پنجاب کی تقسیم کا سوچنا چھوڑ دے کیونکہ اس کے بعد مرکزی پنجاب کے 25 سے زائد اضلاع میں وہ اپنا کنٹرول کھو دے گی، جہاں مسلم لیگ (ن) نے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں اور حکمران جماعت جنوبی پٹی کے 11 اضلاع تک محدود ہوجائیگی تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کی جانب سے کوئی تجویز پیش کی گئی تو ان کی جماعت اس پر رسمی ردعمل دے گی۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ن) کے ایک اور سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے اس بات کو واضح کیا کہ ان کی جماعت کسی صورت میں صرف جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی حمایت نہیں کرے گی بلکہ وہ ملک بھر میں نئے وفاقی یونٹس کی ضرورت کو دیکھنے کے لیے قومی کمیٹی کے قیام کا خیال واپس لے لے گی۔انہوں نے اپنی پارٹی کی حمایت کی شرط بیان کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی طرح ایک قومی کمیشن بنایا جائے جو دیکھے اور فیصلہ کرے کہ کہاں انتظامی حقائق کو دیکھتے ہوئے نئے صوبوں کی ضرورت ہے۔

سابق وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ مئی 2012 میں پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبوں کے قیام کے لیے صوبائی اسمبلی میں قرار داد کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا جس میں بھی یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قومی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔انہوں نے زور دیا کہ جب بھی پنجاب کی تقسیم کی بات کی جائے گی بہاولپور صوبے کے معاملے پر بھی غور کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں پی پی پی کے فنانس سیکریٹری اور ماہر قانون حیدر زمام قریشی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پنجاب حکومت کی جانب سے بنائے گئے مشاورتی کونسل سے اپوزیشن کو نکالنے سے پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کس طرح آئینی ترمیم کے لیے ہماری حمایت چاہتی ہے، جب وہ اس معاملے پر ہمیں اعتماد میں ہی نہیں لے رہی ۔پی پی پی رہنما نے جنوبی پنجاب سیکریٹری کے قیام کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس مقصد کے لیے کام نہیں کرے گا اور ’فیصلہ سازی کے اختیارات لاہور کے پاس باقی رہیں گے اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری مقامی طور پر فیصلہ لینے کے بجائے صوبائی دارالحکومت کو فائلیں منتقل کریں گے۔