سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے شادی کی عمر اٹھارہ سال کرنے کا بل منظور کر لیا

ساہیوال واقعے پر پنجاب حکومت کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو مستر د ،جوڈیشل کمیشن بنانے کی مطالبہ سانحہ ساہیوال بارے ایڈیشنل سیکرٹری سینیٹ ممبرا ن کے جوابات نہیں دے سکے اورجے آئی ٹی انہیں افسران پر مشتمل ہے ، قانونی طور پر واقعے میں ملوث افراد تحقیقات کرنے کی مجاز ہے،چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز

بدھ 30 جنوری 2019 22:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 جنوری2019ء) سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے شادی کی عمر اٹھارہ سال کرنے کا بل منظور کر لیا،اور ساہیوال واقعے کے حوالے سے پنجاب حکومت کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو مستر د کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی مطالبہ کردیا ہے۔ گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا چیئرمین سنیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی صدارت میں اجلاس ہوا، اجلاس میں کم عمری کی شادی اور ساہیوال سانحہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمان نے چائلڈ میرج کی عمر کی حد مقرر کرنے سے متعلق ترمیمی بل 2018 پیش کرتے ہوئے کہا کہ لڑکے و لڑکیوں کے لئے شادی کی عمر کی حد 16 سال کے بجائے اٹھارہ سال کی جائے، یہ بل وفاق کے لئے ہے اور صوبے بھی اس پر عمل کریں، سندھ میں یہ بل پہلے ہی پاس ہوچکا ہے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ فنکشنل کے سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ اس معاملے پر قران و شریعہ کے مطابق ترمیم کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی مشاورت لی جائے۔

تاہم ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے قانون سازی کے لئے لازمی نہیں، ہر چیز میں اسلامی نظریاتی کونسل کو گھسیٹنا نہیں چائیے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے بھی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاشرے میں تو چالیس دن یا پانچ سال کی بچیوں کا بھی نکاح کردیا جاتا ہے، کم عمر بچیوں کو معاشرتی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، شادی کے لئے اٹھارہ سال عمر کا قانون پارلیمنٹ سے منظور ہونا چاہئے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر ثنا جمالی نے بھی کہا کہ کم سن عمر میں بچیوں کی شادی کو روکا جائے۔وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت کو اٹھارہ سال شادی کی عمر کی حد مقرر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، بل کابینہ کی منظوری کے لئے بھجوا دیا گیا ہے اور آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کردیا جائے گا۔انسانی حقوق کمیشن اور کمیٹی ارکان نے بل کی حمایت کرنے پر حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ سینیٹر شیری رحمان کا بل تجویز کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں، کم عمری میں شادیاں معاشی معاشرتی مسائل پیدا کرتی ہیں، وفاق سے صوبوں کو اچھا پیغام جاِئے گا۔سینیٹ کمیٹی نے بچوں کی شادی کی عمر کی حد اٹھارہ سال کرنے کا شیری رحمان کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔کمیٹی نے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجا ب کی جانب سے ساہیوال واقعے کے حوالے پیش کی جانے والی رپورٹ کو مستر د کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کے حوالے بنائی جانے والی جے آئی ٹی کے قواعد وضوابط اور حدود کو تعین نہیں کیا گیا ۔

چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے غیر تسلی بخش رپورٹ پیش کی گئی ہے ، ایڈیشنل سیکرٹری سینیٹ ممبرا ن کے جوابات نہیں دے سکے۔ جبکہ جے آئی ٹی انہیں افسران پر مشتمل ہے ، قانونی طور پر واقعے میں ملوث افراد تحقیقات کرنے کی مجاز ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہائی کورٹ جج کی سربرائی میں جوڈیشنل انکوائر ی کروائی ، پنجاب حکومت اس معاملے کی تحقیقات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔

اجلاس کے دوران سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سابق ایس ایس پی ملیر ریاستی ادارے میں رہتے ہوئے دہشت گرد تھا، اور ریاستی ادرے اسکے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے اسے تحفظ فراہم کرتے رہے۔انہوںنے کہا کہ یہاںتک کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی راؤ انوار کے سامنے بے بس تھے،اس کے خلاف کاروائی کی ہوتی تو ساہیوال کا واقعہ رونما نہ ہوتا،راؤ انوار سے سابقہ وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی خوفزدہ تھا۔

اجلاس کے دوران قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے نمائندے نے سانحہ ساہیوال کے ملزمان کے ساتھ بھی کسی قسم کے دہشتگردی اور ہتھیاروں کی تردید کردی ، انسانی حقوق کمیشن کے ممبر چوہدری شفیق نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات سے معلوم ہو اہے کہ کوئی خودکش جیکٹ نہیں ملا، عینی شاہدین کے مطابق کار سے کسی قسم کا کوئی اسلحہ بھی برآمد نہیں ہوا۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا اجلاس کے دوران نیب کی جانب سے سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر کو ہتھکڑیاں لگانے کا معاملہ پر بات چیت کی گئی، سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ 400 سے زائد افراد کے قاتل راؤ انوار کو ہتھکڑیاں نہیں لگائی گئیں جبکہ سرگودھا کے پروفیسر کو ہتھکڑیاں لگائیں گئیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ نیب ، سرگودھا کے پروفیسر کو ہتھکڑیاں لگانے والے معافی مانگیں۔نیب نے ریاست کے اندر ایک الگ سے ریاست قائم کررکھی ہے اور یہ سابق صدر جنرل مشرف کی باقیا ت ہیں۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ نیب سے ذریعے سیاسی پارٹیوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ نیب حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اس حوالے سے ملازم محمد رفیع سمیت متعدد اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔کمیٹی نے قومی کمیشن انسانی حقوق کو ہدایت کر دی کہ ملک بھر نیب کے تمام لاک اپ سنٹرز کے دورے کیے جائیں اور نیب حکام کو ہدایت کی کہ وہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے لکھے جانے والے خط کا ایک ہفتے کے اندر جواب اور انہیں تمام لاک اپ سنٹرز کے دورے کی اجازت دی جائے۔۔۔۔۔ شمیم محمود