قومی اسمبلی میں 434 کھرب 77 ارب 83 کروڑکے لازمی اخراجات کی تفصیلات پیش

مطالبات زر کا 99 فیصد حصہ قرضوں کی واپسی کے لئے ہے‘ قرضوں پر سود کی لاگت میں 82 فیصد اضافہ ہوا ہے (ن) لیگ کی رکن ڈاکٹر عائشہ غوث اور دیگر ارکان کا اظہار خیال

بدھ 26 جون 2019 14:25

قومی اسمبلی میں 434 کھرب 77 ارب 83 کروڑکے لازمی اخراجات کی تفصیلات پیش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 جون2019ء) قومی اسمبلی میں 434 کھرب 77 ارب 83 کروڑ 42 لاکھ 65ہزار کے لازمی اخراجات کی تفصیلات پیش کردی گئیں جبکہ اس پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ جب تک اصلاحات اور نظام بہتر نہیں ہوتا معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ ریلوے میں اب تک 45 سے زائد حادثات اس دور میں ہو چکے ہیں تاہم کوئی وزیر مستعفی نہیں ہوا‘ آئی ایم ایف سے پیکج ڈیل کی وجہ سے سٹیٹ بنک سے قرضہ نہیں لیا جاسکتا۔

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں 20 جون 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال کی بابت مطالبات زر اور تخصیصات میں شامل غیر تصویبی اخراجات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رکن ڈاکٹر عائشہ غوث نے کہا کہ یہ مطالبات زر کا 99 فیصد حصہ قرضوں کی واپسی کے لئے ہے‘ قرضوں پر سود کی لاگت میں 82 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ دس ماہ میں یہ دوگنا ہوگیا ہے۔

پالیسی ریٹ بڑھانے کے لئے غلط ڈیٹ مینجمنٹ سے اندرون ملک قرضوں کی شرح زیادہ ہوئی ہے۔ یہ حکومت طویل المدتی قرض لیتی ہے ‘ حکومت بتائے کیا وہ اپنی ڈیٹ مینجمنٹ سٹریٹجی سے مطمئن ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت نے قرضہ لے کر ہی کام چلانا ہے اور یہ قرض اس بجٹ سے واپس کرنا ہے اور سود کی ادائیگی بھی اس بجٹ میں سے ہوتی ہے۔

اس کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ پر بوجھ پڑتا ہے۔ سٹیٹ بنک سے قرض اس لئے اب نہیں لے سکتے کہ آئی ایم ایف سے پیکج ڈیل ہوئی ہے اور اس میں یہ شرط عائد ہوتی ہے۔ صوبوں کو ترجیح پر پیسے دیئے جائیں۔ الیکشن کمیشن کئی ماہ سے مکمل نہیں ہے، ایسے میں جو فیصلے ہو رہے ہیں وہ متنازعہ ہوں گے۔ اتفاق رائے پیدا کرنا حکومت کا کام ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قیصر احمد شیخ نے کہا کہ اندرون ملک قرضوں پر سود میں اس سال 1140 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

مارک اپ ریٹ سوا چھ فیصد سے 12 فیصد کرنے سے یہ ہوا۔ 3 ہزار ایک سو ارب روپے خسارہ ہے جو تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ 982 ارب روپے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا دیا گیا۔ ہم نے بارہا کہا کہ سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کرنے دیں یہ تب اس کے مخالف تھے اب اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پی ٹی آئی نے قرضوں کے نعرے پر الیکشن لڑا اور اب بھی ہر روز یہی بات سنتے ہیں۔

گزشتہ حکومتیں بھی اپنے قرضے واپس کرتی تھیں۔ یہ بھی یہی کر رہے ہیں۔ نندی پور منصوبے میں ہمارے وزیر قانون کا نام بھی تھا وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوگیا تو وہ اس سے نکل گیا۔ میں اپنی جماعت کے ساتھ کھڑا ہوں تو میرا نام اس پر ابھی تک ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن چوہدری ریاض الحق نے کہا کہ ریلوے کی سالانہ آمدن 2018ء میں 531 ارب روپے سے تجاوز کر گئی تھی۔

خسارہ کم ہوا تھا۔ ہم 20 دن کے تیل کے ذخائر چھوڑ کر گئے تھے۔ 10 نئی ٹرینوں میں سے سات ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں۔ ایم ایل ون مسلم لیگ (ن) نے شروع کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن شاہدہ اختر علی نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں گردشی قرضہ چار فیصد بڑھ گیا ہے۔ محصولات جمع کرنے کے لئے نئے ذرائع کون سے تلاش کئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقرر کا معاملہ سپریم کورٹ چلا گیا، اس ایوان کو ڈی گریڈ کیا جارہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ان مطالبات زر پر ہم بات چیت کر سکتے ہیں لیکن ہم اس کے لئے ووٹ نہیں دے سکتے۔ حکومت نے 9 ماہ میں پانچ ہزار ارب روپے قرض دیا ہے۔ ریلوے کے 45 حادثات ہوگئے ہیں کوئی وزیر مستعفی نہیں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ہماری کرنسی کی قدر میں کمی بے قابو ہوگئی ہے۔

فسکل خسارہ 32 سو ارب روپے کے قریب ہے۔اس کو کمرشل بنکوں پر ڈالا جارہا ہے۔ شرح سود 18 سے 19 فیصد تک چلی جائے گی۔ روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی۔ اس بجٹ کے اثرات عوام تک پہنچیں گے تو عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اقتصادی پالیسیوں پر اتفاق کا کوئی راستہ ہے تو سب سے پہلے اس بجٹ میں عوام دشمن اقدامات ختم کریں۔ پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے کہا کہ صوبے کو جو رقم دیئے جانے کے حوالے سے آگاہ کیا جاتا ہے وہ اس کو مدنظر رکھ کر بجٹ بناتے ہیں‘ اگر ان کا طے شدہ حصہ نہیں ملتا تو وہ متاثر ہوتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن سید حسین طارق نے کہا کہ اتنی بڑی رقم پر یہ ایوان ووٹ نہیں دے سکتا۔ اس لئے اس پر بات ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن محسن رانجھا نے کہا کہ عمارتیں بنانے سے قانونی نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کا تازہ ترین ایڈیشن کا اجراء ہونا چاہیے۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ غیر تصویبی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ قرضوں کا ہے۔

جی ڈی پی کا 5.1 فیصد قرضوں میں دے کر ہی ہم ملک چلاتے رہے۔ یہی بوجھ جب اس حکومت پر پڑتا ہے تو وہ چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں۔ ملک بہتر کرنے کے لئے نظام بہتر کرنا ہوگا اور یہ بیورو کریسی کے ہاتھ میں ہے۔ ان لازمی اخراجات میں ملکی قرضہ جات کی واپسی کے لئے 391 کھرب 72 ارب سے زائد بیرونی قرضہ جات کے مصارف کی مد میں تین کھرب 59 ارب 76 کروڑ ‘ بیرونی قرضہ جات کی واپسی کے لئے 10 کھرب 95 ارب 25 کروڑ‘ ملکی قرضہ جات کے مصارف 25 کھرب 31 ارب ‘ 68 کروڑ‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین امدادی رقوم اور متفرق تطبیق 20 ارب 40 کروڑ روپے عدالت عظمیٰ کے لئے دو عرب نو کروڑ 50 لاکھ روپے‘ انتخابات کے لئے 6 ارب 84 کروڑ 90 لاکھ روپے شامل ہیں۔