کشمیریوں کے انسانی حقوق کے مسئلے کو موثر اور فعال انداز میں اٹھایا جائے،نسیم احمد باجوہ

جمعرات 19 ستمبر 2019 18:46

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2019ء) پاکستانی ن-ژاد برطانوی شہری، مصنف اور قانون داں نسیم احمد باجوہ نے کہا ہے کہ الحاقِ کشمیر کے بجائے آزادئ کشمیر کی بات کی جائے تو کامیابی کے زیادہ امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہ بطور مہمان مقرر گزشتہ روز ’’کشمیر: امکانات، خدشات‘‘ کے موضوع پر جسٹس (ر) حاذق الخیری کی زیر صدارت شوریٰ ہمدرد کراچی کے اجلاس سے ہمدرد کارپوریٹ آفس کراچی میں خطاب کر رہے تھے۔

اجلاس میں ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد بھی موجود تھیں۔ نسیم احمد باجوہ نے مزید کہا کہ کشمیر آزاد ہو کر بھارت یا چین کے ساتھ نہیں جائے گا وہ پاکستان ہی کا حصہ بنے گا۔ لہٰذا کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کو حق خودارایت دینے کے مطالبے کو ہر بین الاقوامی فورم میں اٹھایا جائے اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی اسے پیش کیا جائے جب بھارت اپنے جاسوس کا کیس اس عدالت میں لے جا سکتا ہے تو پاکستان کشمیر کا مسئلہ کیوں نہیں لے جا سکتا پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث نے کہا کہ موجودہ زمانہ ہیومن رائٹس کا زمانہ ہے کشمیریوں کے انسانی حقوق کے مسئلے کو موثر اور فعال انداز میں اٹھایا جائے تو کامیابی کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جبری کرفیو ہے اور وہاں انسانی اقدار کی پامالی ہو رہی ہے اس صورتحال اور بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کی منسوخی کو ہدفِ تنقید بنایا جائے تو دنیا ہماری بات سنے گی۔ اس دفعہ کی تنسیخ سے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ابوبکر شیخ نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تو کیا ایسا مقدمہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں دائر نہیں کیا جا سکتا انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر بریف کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان کو اس علاقے کے تمام ممالک، بشمول روس، کے صدور اور سربرہانِ حکومت سے بالمشافہ ملاقات کرنی چاہیے، کشمیر کے مسئلے کو مزید بین الاقوامی بنانے کی ضرورت ہے۔

جسٹس (ر) ضیا پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ اوف پاکستان کے دروازے کھلے ہیں اس میں کوئی بھی مقدمہ لے جا سکتے ہیں تاہم بھارتی آئین کی دفعہ 370 کا مقدمہ اس کی جیورس ڈِکشن میں نہیں آتا۔ کورٹ ایسا فیصلہ نہیں کر سکتی جس کا وہ نفاذ نہ کرا سکے۔ انجینئر ابن الحسن رضوی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ وہاں کے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ انڈیا یاپاکستان کس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی نے کشمیر کاز کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر سید امجد علی جعفری نے کہا کہ اجتماعی جدوجہد سے ہی کشمیریوں کو آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔ مسز مسرت اکرم نے کہا کہ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اب بھارتی ظلم و ستم کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ انجینئر سید محمد پرویز صادق نے کہا کہ اس وقت کشمیریوں میں جو جذبہ ٴ آزادی پایا جاتا ہے، پاکستان کو چاہیے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کی بحالی کے دبائو کو مزید بڑھاکر کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ ڈاکٹر تنویر خالد نے کہا کہ ہمیں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی نسل کشی، انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی فاشزم کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا چاہیے اور وزیر اعظم پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والے اپنے خطاب میں اس بھیانک صورتحال کو پوری طرح واضح کریں۔

کرنل (ر ) مختار احمد بٹ نے کہا کہ یہ ہمارا کبھی دعویٰ نہیں رہا کہ کشمیر بنے گا پاکستان، ہم تو کشمیر میں صرف آزاد اور غیرجانبدار استصواب رائے کا مطالبہ کرتے رہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ مقبوضہ کشمیر میں چالیس دن سے کرفیو ہے، ہم ان کی مدد کے لیے کیا کر رہے ہیں ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہوگئی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہین حبیب نے کہا کہ ادیبوں نے کشمیرپر کوئی کتاب، کوئی ناول ایسا نہ لکھا جو وہاں کی صورتحال کو اجاگر کرتا ہو اور انہوں نے کشمیر پر کوئی ریلی بھی نہیں نکالی۔

عثمان دموہی نے کہا کہ او آئی سی، اسلامی ممالک اور دنیا کی امن پسند قومیں ہمارے ساتھ ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کا کیس خود خراب کیا ہے۔ بریگیڈیر (ر) ریاض الحق نے کہا کہ ہمیں انفرادی طور پر سوچنا چاہیے کہ ہم نے کشمیر کے لیے کیا کیا اور کیا کر رہے ہیں کشمیر میں انسانی حقوق کا جو المیہ جنم لے رہا ہے اس سے ہمیں دنیا کو آگاہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کے خلاف فعال کرنا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر اخلاق احمد نے کہا کہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال دیا جس سے فائدہ اٹھاکر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بدل ڈالی اور اب وہ آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی بنا دیا جو اس کی ڈپلومیسی کی کامیابی ہے۔ پاکستان کو جنگ سے احتراز کرتے ہوئے بھارت کے خلاف سفارتی مہم کو جاری رکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر شکیل فاروقی نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا کہ پاکستان کے دریا وہاں سے نکلتے ہیں، کشمیر کی وجہ سے ہمارے پاس پانی ہے۔ مودی کا ہندو توا ہمیں پانی سے محروم کرنا چاہتا ہے، اس کا اگلا قدم ہمارے پانی کے خلاف ہوگا۔ ہمدرد کے ڈائریکٹر پروگرامز اینڈ پبلی کیشنز سلیم مغل نے کہا کہ یہ صرف بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک بڑی چال ہے جس میں بھارت کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل بھی ملوث ہیں اور یہ چین کے خلاف ایک اقدام بھی ہے۔

ہندو توا اس پورے علاقے کو ایک اکھنڈ مہا بھارت کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمیں اس کے جواب میں بھارت کے دلتوں، جن کا مسلمانوں کی طرح بڑی ذات کے ہندئوں نے جینا دو بھر کیا ہوا ہے، کو متحرک کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت جنگ کر کے اپنی روز افزوں ترقی کوکبھی بھی سبوتا-ژ نہیں کرنا چاہے گا، جنگ ہم بھی نہیں چاہتے کہ ہمیں اپنی طاقت کو مجتمع رکھنا ہے۔ اجلاس میں اراکین کے علاوہ مبصرین نے بھی شرکت کی۔