چوروں اور ڈاکوئوں کا رونا رونے والے وزیراعظم کی رہائش مافیاز کی ’’پناہ گاہ‘‘ بنی ہوئی ہے،سراج الحق

فوج کی حمایت پر خوش گمانی کا شکار وزیراعظم عوامی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ایف بی آر میں بیٹھے ہوئے آئی ایم ایف کے نمائندے پاکستانی عوام پر مہنگائی کا ٹوکہ چلا کر ملک سے بھاگ گئے،نیب کہتاہے ہم نے حکومتی نمائندوں پر ہاتھ ڈالا تو حکومت پندرہ دن بھی نہیںچل سکے گی ، جس پر حکومت روتی ہے طیب اردگان کی موجودگی میں بھی وزیراعظم نے قومی یکجہتی کی بات نہیں کی،جماعت اسلامی کی حکومت آئی تو ہم سب سے پہلے گیس کی رائیلٹی بلوچستان کو دیں گے، المیہ ہے بلوچستان کے حکمرانوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا ، ڈسٹرکٹ بار جعفر آباد سے خطاب

ہفتہ 15 فروری 2020 22:52

چوروں اور ڈاکوئوں کا رونا رونے والے وزیراعظم کی رہائش مافیاز کی ’’پناہ ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 فروری2020ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ چوروں اور ڈاکوئوں کا رونا رونے والے وزیراعظم کی رہائش مافیاز کی ’’پناہ گاہ‘‘ بنی ہوئی ہے۔ فوج کی حمایت پر خوش گمانی کا شکار وزیراعظم عوامی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایف بی آر میں بیٹھے ہوئے آئی ایم ایف کے نمائندے پاکستانی عوام پر مہنگائی کا ٹوکہ چلا کر ملک سے بھاگ گئے ۔

نیب کہتاہے کہ اگر ہم نے حکومتی نمائندوں پر ہاتھ ڈالا تو حکومت پندرہ دن بھی نہیںچل سکے گی ، جس پر حکومت روتی ہے ۔ احتساب صرف ان لوگوں کا ہو رہاہے جو حکومت کے خلاف ہیں ۔ سرکارکا چور زمانے کا ولی ، جو چور حکومت کے ساتھ نہیں وہ جیل میں ہے ۔ طیب اردگان کی موجودگی میں بھی وزیراعظم نے قومی یکجہتی کی بات نہیں کی ۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کی حکومت آئی تو ہم سب سے پہلے گیس کی رائیلٹی بلوچستان کو دیں گے ۔

المیہ ہے کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ جعفر آباد ، نصیر آباد ، ڈیرہ الہ یار زرعی علاقہ ہے مگر یہاں کے عوام کو پانی نہیں مل رہا ۔ علاقے میں کوئی زرعی یونیورسٹی اور آبی ذخیرہ نہیں بنایا گیا ۔ ان خیالات کااظہار انہوںنے ڈسٹرکٹ بار جعفر آباد سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ ، امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی ، صدر ڈسٹرکٹ بار زبیر احمد لاشاری اور سیکرٹری جنرل مہتاب حسین بھی موجودتھے ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ پاکستان کسی جرنیل نے نہیں ، ایک وکیل نے بنایا جن کا نام محمد علی جناح ؒ تھا ۔جس وکیل نے مسلمانان ہند کی قیادت کی وہ قانون کی بالادستی اور اصولوں کی حکمرانی چاہتے تھے ۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے خطرناک موڑ پر کھڑ ا اور چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہواہے ۔ یہ خطرات باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہیں اور ان لوگوں سے ہیں جو آپ کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔

اٹھارہ ماہ قبل ہماری شرح ترقی 5 اعشاریہ 7 فیصد تھی جو ، 2 اعشاریہ پانچ فیصد پر آگئی ہے یہ خطے کے تمام ممالک سے کم ہے ، حالانکہ ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں اور نہ خدانخواستہ کسی ہنگامی صورتحال کا سامناہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے پناہ وسائل عطا کیے ہیں ۔ زرعی زمینوں ، اونچے پہاڑوں ، ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ ساحل سمندر ، چار بہترین موسم اور سب سے بڑھ کر جفاکش اور محنتی عوام ۔

اگر دیانتدار اور خوف خدا رکھنے والی حکومت ہو تو پاکستان اپنے اڑوس پڑوس کے ممالک کی غلے کی ضروریات بھی پوری کر سکتاہے مگر ملک غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی غلامی کے شکنجے میں پھنسا ہواہے ۔ ان ساری پریشانیوں اور مشکلات کے اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو چہرے بدل بد ل کر اقتدا ر کے ایوانوں پر قابض ہوتے رہے ۔ دنیا سودی نظام کو چھوڑ رہی ہے او ر ہمارے ملک میں سود کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے جو اب چھ فیصد سے 13فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔

13 فیصد پر قرضے لے کر کون کاروبار کرے گا ۔ دو ہزار 9 سے ارب تو سالانہ سود میں چلا جاتاہے اور صرف 700 ارب روپیہ ترقیاتی کاموں کے لیے بچتاہے اور یہ بھی پورا خرچ نہیں ہوتا بلکہ کرپشن کی نذر ہو جاتاہے ۔ عوام کی خون پسینے کی کمائی اور ٹیکسوں کا پیسہ آئی ایم ایف کے پاس چلا جاتاہے ، وزیراعظم قرضہ لینے کو خود کشی کہتے تھے ، اور اب دھڑا دھڑ قرضے لے رہے ہیں ۔

اٹھارہ ماہ میں حکومت نے 11 ہزار ارب کا قرضہ لیا ۔ 70 سالوں میں 31 ہزا ر ارب روپے قرضہ تھا جو اٹھارہ ماہ میں 42 ہزار ارب تک پہنچ گیاہے ۔ روپیہ کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا بن کر رہ گیاہے ۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے پورا معاشی نظام آئی ایم ایف کے ہاتھ میں د ے دیا ۔ ایف بی آر اور اسٹیٹ بنک میں آئی ایم ایف کے لوگ بیٹھے ہیں ۔ روپے کی قدر، بجلی ، گیس اور تیل کی قیمتیں وہ مقرر کرتے اور ٹیکس لگاتے ہیں ۔

اب تو درآمد اور برآمد کی اجازت بھی حکومت آئی ایم ایف سے لیتی ہے ۔ صنعت و زراعت تباہ ہونے سے معیشت کا بیڑا غرق ہوا ۔ انہوںنے کہاکہ جس ایجنڈے کے تحت یہ حکومت لائی گئی تھی وہ پورا نہیں ہوا جس کی وجہ سے حکمرانوں کے چہرے زرد پڑ گئے ہیں اور ان پر ایک خوف طاری ہے ۔ ملک میں اداروں کی نہیں ، افراد کی حکومت ہے ۔ اصولوں اور عوامی مفادات کے خلاف فیصلے ہوتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ دھرنے کے دوران جو کچھ ہوتا رہا حکومت اور پرویز الٰہی کا فرض ہے کہ قوم کے سامنے لائیں ۔