پولیس نے ’کرنل کی بیوی‘ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دئیے

عسکری ذرائع کے مطابق معاملہ آرمی چیف کے علم میں بھی لایا جا چکا ہے،کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے،اس معاملے میں بھی تمام تر قانونی ذمہ داریاں پوری کی جائیں گی۔پولیس ترجمان

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعہ 22 مئی 2020 12:12

پولیس نے ’کرنل کی بیوی‘ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دئیے
اسلام آباد (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22 مئی 2020ء) پولیس نے ’کرنل کی بیوی‘ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دئیے ۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز خود کو کرنل کی بیوی ظاہر کرنے والی ایک خاتون کی جانب سے پولیس اہلکار کے ساتھ مبینہ بدتمیزی کا مقدمہ ایک نامعلوم خاتون کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق مانسہرہ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ کا مقدمہ سی پیک پولیس فورس کے اہلکار کے ساتھ ہونے والی مبینہ بدسلوکی پر درج کیا گیا ہے۔

پولیس اہلکار کو گزشتہ روز خود کو فوجی افسر کی بیوی ظاہر کرنے والی ایک خاتون کی جانب سے مبینہ بدتمیزی کا نشانہ بنایا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔میڈیا ذرائع کے مطابق واقعے کا مقدمہ اے ایس آئی اورنگزیب کی درخواست پر درج کیا گیا ہے جس کے مطابق خاتون نے عوام کے سامنے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور کار سرکار میں مداخلت کے ساتھ ساتھ پولیس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔

(جاری ہے)

مقدمے میں پولیس اہلکار کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ خاتون نے گاڑی میں بیٹھ کر مجھے کچلنے کی کوشش کی اور مانسہرہ کی طرف چلی گئیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق درج ہونے والے مقدمے میں خاتون کی شناخت تو ظاہر نہیں کی گئی البتہ پولیس نے بتایا ہے کہ خاتون کا تعلق شنکیاری سے ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔۔پولیس کے ترجمان کے مطابق کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور اس معاملے میں بھی تمام تر قانونی ذمہ داریاں پوری کی جائیں گی۔

بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھی کہنا باقی ہے کہ اپنے آپ کو مذکورہ خاتون جس فوجی افسر کی بیوی بتا رہی ہے،دیکھنا ہے کہ اُس افسر کا واقعے سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔یہ معاملہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علم میں بھی لایا گیا ہے تاہم واقعے کی تحقیقات اور ذمہ داران کیخلاف کارروائی کے لیے فوجی سربراہ کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔فوج میں ایسے واقعات کے بارے میں نظام موجود ہے جو حرکت میں آ چکا ہے۔