عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی منظر عام پرآگئی، 198 افراد کے قتل کا اعتراف

ملزم کی جانب سے گینگ وار کے لیے سال2008 سے 2013 کے دوران مختلف ہتھیارخریدنے کا بھی اعتراف عزیربلوچ نے ایران سے پیدائشی سرٹیفیکٹ، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیا، ایران سے بوگس شناختی دستاویزات بنوانے میں عائشہ نامی خاتون نے معاونت فراہم کی، رپورٹ سندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ پیرکو پبلک کی جائے گی

جمعہ 3 جولائی 2020 22:35

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2020ء) ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ لیاری گینگ وار کے سربراہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے،جس میں ملزم نے تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔عزیر بلوچ کی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ 36 صفحات پر مشتمل ہے تاہم سندھ حکومت خود پیر کے روز لیاری گینگ وار کے سرغنہ کی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر لائے گی۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں حبیب جان، حبیب حسن، سیف علی اور نور محمد سمیت عزیر بلوچ کے اہل خانہ اور دوستوں کے نام شامل ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے تفتیش کے دوران لسانی اور گینگ وار تنازع میں 198 افراد کے قتل کا اعتراف کیا۔رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر 7 ایس ایچ اوز مختلف تھانوں میں تعینات کرائے جبکہ اقبال بھٹی کو لیاری میں ٹان پولیس افیسر تعینات کروایا، اسی طرح 2019 میں محمد رئیسی کو ایڈمنسٹیٹر لیاری تعینات کروایا۔

(جاری ہے)

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم کے بیرون ملک فرار ہونے کے بعد لاکھوں روپے ماہانہ بھتہ دبئی باقاعدگی سے پہنچایا جاتا تھا۔ عزیر بلوچ نے گینگ وار کے لیے سال2008 سے 2013 کے دوران مختلف ہتھیارخریدنے کا اعتراف بھی کیا۔ ملزم نے تفتیشی ٹیم کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے متعدد پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو قتل کیا۔جے آئی ٹی کے مطابق عزیربلوچ کے پاکستان اور دبئی میں غیرقانونی اثاثوں کا انکشاف بھی سامنے آیا ہے، رپورٹ میں ملزم کے 20 سے زائد دوستوں کے نام اور 16 رکنی اسٹاف کا ذکر بھی شامل ہے۔

ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ گینگ وار میں بلاواسطہ اور براہ راست ملوث تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیربلوچ کو 2006 میں ٹھٹھہ کے علاقے چوہڑ جمالی سے گرفتار کر کے 7 کیسز میں چالان کیا گیا اور پھر وہ دس ماہ بعد جیل سے رہا ہوا۔لیاری آپریشن کے دوران عزیر بلوچ نے اپنے استاد تاجو کو دبئی اور پھر افریقہ منتقل کروایا جبکہ 10سے زائد کارندوں کو ایران اور دیگرممالک بھی بھیجا، اسی طرح ملزم نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے گینگ وار کے لڑکوں کی مدد کرنے کے لیے افسران کی تقرریاں بھی کروائیں۔

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ عزیر بلوچ نے 8 سے زائد پولیس افسران کو مختلف مقامات پر تعینات کروایا، لیاری ٹائون کا سابق ایڈمنسٹریٹر 2009 میں 2 لاکھ روپے بھتہ ہر مہینے باقاعدگی سے بھیجتا تھا جبکہ سرغنہ کی ہدایت پر گینگ وار کے کارندے مال بردار ٹرک کو لوٹتے تھے اور پھر مال فروخت کر کے 15 لاکھ روپے حصہ دیا جاتا تھا۔جے آئی ٹی میں بتایا گیا ہے کہ عزیربلوچ نے گینگ وار کے لیے اسلحے کی خریداری لالہ توکل اور سلیم پٹھان نامی لوگوں سے کی، 2009 کے بعد اسلحہ خرید کر اپنے ساتھیوں کو فراہم کیا، رحمان ڈکیت کے بعد عزیربلوچ نے فشنگ بوٹ مالکان سے بھی بھتہ وصول کیا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ عزیربلوچ نے ایران سے پیدائشی سرٹیفیکٹ، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیا، ایران سے بوگس شناختی دستاویزات بنوانے میں عائشہ نامی خاتون نے معاونت فراہم کی۔رپورٹ میں عزیز بلوچ کے پاکستان اور دبئی میں غیرقانونی طریقے سے بنائے اثاثوں کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ پیر کو پبلک کی جائے گی۔