آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی ایک روپیہ 40 پیسے فی یونٹ سستی ہو گی

معاہدوں پر نظرثانی سے بجلی صارفین کو 3 سال میں 300 ارب کا ریلیف ملے گا، کم صلاحیت والے پلانٹس کو بند کر کے بہتر کارکردگی والے پاور پلانٹس چلائیں گے: وفاقی وزیر اسد عمر

پیر 23 نومبر 2020 21:13

آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی ایک روپیہ 40 پیسے فی یونٹ سستی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 نومبر2020ء) وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی ایک روپیہ 40 پیسے فی یونٹ سستی ہو گی، معاہدوں پر نظرثانی سے بجلی صارفین کو 3 سال میں 300 ارب کا ریلیف ملے گا، کم صلاحیت والے پلانٹس کو بند کر کے بہتر کارکردگی والے پاور پلانٹس چلائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق کابینہ کی توانائی کمیٹی کے سربراہ اسد عمر نے پیر کے روز توانائی سیکٹر پر ایک اہم بریفنگ میں کہا کہ 2022 میں بجلی 74 پیسے 2023 میں 66 پیسے فی یونٹ سستی ہو گی، کم صلاحیت والے پلانٹس کو بند کر کے بہتر کارکردگی والے پاور پلانٹس چلائیں گے۔

قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کا ٹیرف ایک تہائی کم کر دیا گیا ہے،آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر جلد حتمی پیشرفت ہوگی۔

(جاری ہے)

مشیر خزانہ حفیظ شیخ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ حکومت میں آتے ہی بجلی 12 روپے فی یونٹ مہنگی کرتے تو سرکلر ڈیٹ ختم ہوتا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ سالانہ 1000 ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں خرچ ہو رہے ہیں، ماضی میں درآمدی کوئلے سے بجلی کے منصوبے لگائے گئے، گذشتہ حکومت نے بجلی کے ترسیلی نظام پر توجہ نہیں دی۔

اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاورسیکٹر کے موجودہ نظام سے سرمایہ دار، سیاستدان اور سرکاری افسران فیض یاب ہوئے،آئی پی پیز سے معاہدو پر نظرثانی سے 3 سال میں 300 ارب کا ریلیف بجلی صارفین کو ملے گا، معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی ایک روپیہ 40 پیسے فی یونٹ سستی ہو گی۔اسد عمر نے بتایا کہ ڈھائی سال میں ترسیلی نظام کے 31 منصوبوں کو مکمل کیا گیا،پاور سیکٹر میں ٹیکنیکل ماہرین کی شدید قلت ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے بجلی لاسز میں اضافہ ہوا۔ اسد عمر نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ کے۔الیکٹرک کا ٹرانسمیشن سسٹم ٹھیک نہیں کیا گیا۔ کے-الیکٹرک کو آئندہ ڈھائی سالوں میں 1400 میگاواٹ اضافی بجلی دیں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں بجلی کی پیداواری لاگت کم اور مسابقتی مارکیٹ پیدا کرنی ہے۔ ماضی میں بجلی کے اتنے کارخانے لگائے گئے جتنی ضرورت نہ تھی۔