ڈنمارک کی وزیر اعظم لوگوںں سے معافی مانگتے ہوئے رو پڑیں

کورونا وائرس کاپھیلاﺅ روکنے کی غرض سے لاکھوں نیولوں کو مارنے کا حکم دیا گیا تھا جو کہ درست نہیں تھا

Sajjad Qadir سجاد قادر ہفتہ 28 نومبر 2020 05:32

ڈنمارک کی وزیر اعظم لوگوںں سے معافی مانگتے ہوئے رو پڑیں
ڈنمارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 28 نومبر2020ء) کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے حوالے سے آئے روز کوئی نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔کبھی چوہوں کے سر اس وائرس کا الزام تھوپا جا رہا ہے تو کبھی کسی اورجانور پر۔ آپ حیران ہو ں گے کہ ڈنمارک کے ماہرین نے کہا کہ وہاں موجود نیولوں میں کورونا وائرس چلا گیا ہے لہٰذا اس کی فارمنگ روکنے کے ساتھ ساتھ موجود نیولوں کو بھی ہلاک کر دیا جائے۔

اور جب لاکھوں کی تعداد میں نیولے ہلاک کر دیے گئے تو پتا چلا کہ نیولوں میں کورونا وائرس نہیں تھا۔لہٰذا اب وہاں کی وزیراعظم کو لوگوں سے معافی مانگنا پڑ گئی۔یورپی ملک ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فیڈرکسن کورونا کی وبا کے باعث لاکھوں نیولوں کو مارنے کے حکومتی حکم پر کسانوں اور تاجروں سے معافی مانگتے ہوئے رو پڑیں۔

(جاری ہے)

ڈنمارک کی حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں ہی نیولوں کی افزائش کرنے والے کسانوں اور تاجروں کو انہیں جلد سے جلد مارنے کا حکم دیا تھا۔

حکومت نے نیولوں کو مارنے کا حکم اس وقت دیا تھا جب بعض تحقیقات میں ثابت ہوا تھا کہ ڈنمارک کے نیولوں میں کورونا وائرس منتقل ہوچکا ہے اور وہ نیولے وائرس کو تیزی سے انسانوں میں منتقل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ایسی تحقیق کے بعد ڈنمارک کی حکومت نے نیولوں کی افزائش کرنے والے کسانوں اور تاجروں کو سختی سے تاکید کی تھی کہ انہیں جلد سے جلد ہلاک کرکے تلف کیا جائے۔

حکومتی احکامات کے بعد وہاں کے کسانوں اور تاجروں نے صحت مند نیولوں کو بھی مار دیا تھا تاہم اب وہاں کی وزیر اعظم نے حکومت کے غلط احکامات پر معافی مانگ لی۔خبر رساں ادارے کے مطابق ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فیڈرکسن نے نیولوں کی افزائش کرنے والے ایک فارم ہاو¿س کے دورے کے دوران معافی مانگتے ہوئے رو پڑیں۔وزیر اعظم میٹے فیڈرکسن نے فارم ہاو¿س کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ حکومت کی جانب سے نیولوں کو مارنے کے احکامات درست نہیں تھے۔

میڈیا سے بات کرنے کے دوران میٹے فیڈرکسن متعدد بار خاموش ہوگئیں اور انہوں نے اپنے آنسو پونچھے۔کسانوں اور تاجروں سے معافی مانگتے ہوئے میٹے فیڈرکسن نے کہا کہ ڈنمارک کے کسانوں اور تاجروں کی کئی نسلیں یہ کام کرتے گزریں اور ان کے پاس اچھا تجربہ بھی ہے، تاہم حکومت نے انہیں زندگی کی جمع پونجی یعنی تیار نیولوں کو مارنے کا حکم دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ احکامات نیولوں سے کورونا کے پھیلنے کی باتیں سامنے آنے کے بعد دیے گیے تھے، تاہم وہ لاکھوں کی تعداد میں نیولوں کی ہلاکت پر آبدیدہ ہوگئیں۔

حکومت کی جانب سے مستند تحقیقات کے بغیر نیولوں کو مارنے کے احکامات دیے جانے کے بعد حکومت کو اپوزیشن کے سخت احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا اور حزب اختلاف نے وزیر اعظم میٹے فیڈرکسن کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔