صاحب، بڑا ظالم وائرس ہے یہ

DW ڈی ڈبلیو پیر 30 نومبر 2020 14:00

صاحب،  بڑا ظالم وائرس ہے یہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 نومبر 2020ء) پردیس میں رہنے والوں کو ہر دم یہی فکر لگی رہتی ہے کہ گھر سے کوئی بری خبر نہ آ جائے۔ فون کی گھنٹی بجے تو دھڑکا سا لگ جاتا ہے کہ کہیں کچھ ایسا سننے کو نہ مل جائے جسے برداشت کرنے کی سکت نہ ہو۔ انسان والدین کو چھوڑ کر ایک نئی دنیا تو بسا لیتا ہے لیکن نہ صرف ان سے دوری کا احساس پچھتاوے میں مبتلا رکھتا ہے بلکہ ان کی صحت اور زندگی کے حوالے سے دھڑکے بھی لگے رہتے ہیں۔

جب سے کورونا وائرس کی وبا آئی ہے، اس بے وقت فون کال کا خوف مزید بڑھ گیا ہے۔ اب تو یہ بھی علم ہے کہ اگر کوئی خوشی غم ہوئی تو شاید منہ بھی نہ دیکھ پائیں کہ سب فضائی راستے اور سرحدیں بند ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر آ چکی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ساتھ ہی ساتھ لوگوں کا رہا سہا خوف بھی جا چکا ہے۔ یا شاید جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس وبا کے نتیجے میں کھویا ہے، ان کا ڈر بڑھ چکا ہے اور باقیوں کو لگنے لگا ہے کہ نہ کچھ ہوا تھا اور نہ ہی ہو سکے گا۔

بازاروں میں رش ہے۔ شادیاں دھوم دھام سے ہو رہی ہیں۔ ریستورانوں کی رونقیں سلامت ہیں۔ اور تو اور سیاسی جلسے بھی اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں ہیں۔

پی ڈی ایم پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہے۔ ہم جیسے کچھ دیوانوں کو ہمیشہ اپوزیشن سے شکایت رہی کہ انہوں نے ملک میں جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے میں کام نہیں کیا۔ عوام کی طاقت کو سمجھا نہیں۔

سڑکوں پر نہیں نکلے۔ وہ کہتے ہیں کہ دعا پوری ضرور ہوتی ہے لیکن کب ہوتی ہے یہ نہیں علم۔ پی ڈی ایم تشکیل پائی اور ملک بھر میں کامیاب عوامی جلسوں کا آغاز ہوا۔

لیکن شاید ٹائمنگ کچھ ایسی اچھی نہیں تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر آ چکی تھی۔ نہ صرف لوگوں کو بلکہ لیڈروں کو بھی کورونا وائرس ہونے لگا ہے۔ پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کورونا پازیٹو قرار پائے۔

یہی نہیں مہناز بلور صاحبہ جن کی ایک دن پہلے ہی ان کے ساتھ تصویر آئی تھی وہ بھی کورونا پازیٹو نکلیں۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے قمر زمان کائرہ، کیپٹن صفدر، اور دیگر رہنما بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔ جلسوں میں شرکت کرنے والے کتنے عام لوگ اس سے متاثر ہوئے اس کا تو شمار ہی نہیں۔

جہاں حکومت نے اپوزیشن کو کورونا وائرس کی دوسری لہر کا ذمہ دار ٹھہرایا وہیں اپنے جلسوں کی کوئی روک تھام نہیں کی۔

شاید آپ کی نظروں سے حکومت کی الیکشن کمپین کے علاوہ پی ٹی آئی سندھ کا حالیہ تنبو قناتوں والا جلسہ بھی گزرا ہو۔

جب اس سلسلے میں میری بات پیپلز پارٹی کے رہنما علی قاسم گیلانی سے ہوئی تو انہوں نے یہ الزام مسترد کیا اور کہا کہ اگر دوسری لہر ہماری وجہ سے آئی ہے تو پہلی کس کی وجہ سے آئی تھی؟ جہاں جلسے نہیں ہوئے وہاں کورونا وائرس کیوں ہے؟ انہوں نے پی ڈی ایم کے ملتان جلسے کے حوالے سے بھی کہا کہ جو مرضی ہو یہ جلسہ لازمی طور پر ہو گا۔

یعنی بھلے حکومت ہو یا اپوزیشن سیاست پر کوئی سمجھوتہ نہیں اور جلسے جلوس ضرور منعقد کیے جائیں گے۔ یہ کہنا کہ کورونا وائرس امیر غریب کی تفریق نہیں کرتا غلط ہے۔ غریب کے لیے وینٹیلیٹر اور آکسیجن سلنڈر کا انتظام اتنا آسان نہیں۔ اور نہ ہی وہ مہنگے ٹیسٹ کرانے کی سکت رکھتا ہے۔

اس دوسری لہر کا اصل شکار غریب عوام ہی ہوں گے۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی ضد سے باہر نکلیں اور اس غریب پاکستانی کا سوچیں جو دن کی دیہاڑی کی امید پر رات گزارتا ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہو گی۔

جلسے جلوس تو ساری عمر ہوتے رہیں گے۔ لیکن انسانی جان کی قیمت ادا کرنا مشکل ہے۔ صاحب، بڑا ظالم وائرس ہے یہ۔