پاکستان میں ’تمباکو مافیا‘ کی طاقت

DW ڈی ڈبلیو منگل 27 اپریل 2021 15:40

پاکستان میں ’تمباکو مافیا‘ کی طاقت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اپریل 2021ء) ان اشتہارات میں آپ کو کہیں یہ ذکر نہیں ملے گا کہ پاکستان کو ہر سال تمباکو کے باعث بیماریوں سے 615 ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ میری نظر میں ان نقصانات کی ذمہ دار وہ سبھی مقامی اور بین الاقوامی کمپنیاں ہیں، جو اپنی اپنی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں۔ ان 'زہر بیچنے‘ والی کمپنیوں کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان میں مختلف انسداد تمباکو مہمات چلائی جا رہی ہیں۔

ان مہمات کے دباؤ میں آکر فیڈرل کابینہ نے تین جون 2019ء کو سگریٹ اور کولڈ ڈرنکس پر ہیلتھ ٹیکس لگانے کا متفقہ فیصلہ کیا، جس سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس(33 ارب روپے) ہیلتھ کے لیے استعمال کیا جانا تھا لیکن جب بجٹ آیا تو اس میں سے وہ سب شقیں غائب کر دی گئیں، سگریٹ کمپنیوں کو چھوٹ دے دی گئی۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے 2019ء میں برٹش امریکن ٹوبیکو کے ریجنل ڈائریکٹر سے ملاقات کی اور ان سے ڈیم کے نام پر چندہ بھی لے لیا، جو ڈبلیو ایچ او کے آرٹیکل 5.3 کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے آرٹیکل 5.3 کے مطابق حکومتی عہدیدار نہ تو سگریٹ کمپنیوں سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی فنڈ لے سکتے ہیں۔ اس کمپنی پر چائلڈ لیبر کی وجہ سے کیس بھی ملاوی میں چل رہا ہے۔

سگریٹ نوشی کی تشہری مہم کا آغاز

انسانی تہذیب کی تاریخ میں سگریٹ سب سے خطرناک مصنوعات میں سے ایک ہے۔ آپ کو سگریٹ کی تھوڑی سے تاریخ بھی بتاتی ہوں۔

1880ء میں شمالی كیرولائنا کے شہر ڈرہم میں پہلی بار جیمز بکانن ڈیوک نے 24 سال کی عمر میں سگریٹ بنانے کا کاروبار شروع کیا۔

شاید یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہو کہ 1930ء تک سگریٹ بطور دوا استعمال ہوتا تھا۔ 1930ء تک پھیپھڑے کے کینسر اور سگریٹ پینے کے درمیان تعلق کا پتہ ہی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس وقت سگریٹ کو صحت کے لیے فائدہ مند بتا کر تشہیر کی گئی۔

1906ء تک سگریٹ ادویات کے انسائیكلوپیڈیا میں شامل تھی۔ جیمز ڈیوک کی موت 1925ء میں ہوئی۔ موصوف جب تک زندہ رہے، اس جان لیوا دوا کی تشہیر کرتے رہے۔

بعدازاں پبلک ریلیشنز کے 'گاڈ فادر‘ سمجھے جانے والے ایڈروڈ برنیز نے سگریٹوں کی تشہیر کے لیے نئے طریقے استعمال کیے۔ پہلی مرتبہ یہ تجربہ کیا گیا کہ خواتین کو کس طرح سگریٹ پینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

ایک بہت بڑی اشتہاری مہم کے ذریعے نجی میڈیا کا استعمال کیا گیا اور سگریٹوں کو خواتین کی آزادی سے نتھی کر دیا گیا۔

یرنیز نے اس طرح ایک نیا آئیڈیا تشکیل دیا تھا کہ سگریٹ پینے سے خواتین مزید طاقتور اور آزاد ہو جائیں گی۔ ایک آئیڈیا جو آج تک موجود ہے۔ اس تجربے کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ لوگوں کو غیر عقلی رویہ اپنانے پر قائل یا مجبور کیا جا سکتا ہے اور ان کے جذبات و احساسات کو مصنوعات سے جوڑا جا سکتا ہے۔

کیا سگریٹ پینے سے خواتین مزید آزاد ہو جاتی ہیں؟ یہ خیال مکمل طور پر غیر عقلی ہے لیکن یہ ثابت کیا گیا کہ انسان کی احساسات یا جذبات سازی کی جا سکتی ہے اور وہ غیر عقلی اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

پاکستان میں سگریٹوں کی پیداوار میں اضافہ

لیکن آج تو یہ بات سب پر عیاں ہے کہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے اور کورونا جیسی صورت حال میں اس کا استعمال زیادہ جان لیوا ثابت ہوا ہے۔

گزشتہ برس عالمی وباء کورونا وائرس کا شکار ہونے کے خوف سے برطانیہ میں تین لاکھ سے زائد افراد نے تمباکو نوشی چھوڑ دی اور 24 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے پہلے کے مقابلے میں کم کر دی ہے۔ جبکہ پاکستان میں کرونا وائرس کی لہر کے دوران سگریٹ کی پیداوار، فروخت اور اسٹاک میں 9.4 فیصد اور صوبہ پنجاب میں 19.2فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پنجاب حکومت کے ماہانہ بنیادوں پر صنعتی پیداوار اور روزگار کے حوالے سے جاری کیے گئے اعداو شمار بتاتے ہیں کہ اس حوالے سے غیر ملکی سگریٹ کمپنیوں کا یہ موقف درست نہیں ہے کہ غیر قانونی تجارت کی وجہ سے سگریٹ کی پیداوار میں کمی آئی ہے، سگریٹ کی پیداوار اور اس کی غیر قانونی تجارت میں اضافہ انسداد تمباکو اقدامات پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

ادارہ شماریات کے نومبر 2020ء کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے نومبر تک21 ارب 40 کروڑ سگریٹ تیار کیے گئے، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کی پیداوار سے پانچ گنا یعنی تین ارب 50 کروڑ زیادہ ہیں۔

اب بجٹ کی تیاریوں میں پھر سے تمباکو مافیا غیر قانونی اشتہارات اور مختلف ذرائع سے سگریٹ اور دوسری تمباکو مصنوعات کی قیمتوں کو مزید بڑھانے سے روکنا چاہ رہی ہے۔

ایسے میں تمباکو کے نقصانات کی آگاہی کے لیے اور تشہیر کے خلاف اقدامات کے لئے مختلف ادارے اور افراد کام کر رہے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان ملکی اور غیر ملکی ٹبیکو کمپنیوں سے فنڈنگ بھی نہ لے۔ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ‘'PANAH’’ اور ‘' Tobacco Free Pakistan’’ مہمات موثر اقدامات کر رہے ہیں۔

پاکستان کا سگریٹ فری گاؤں

کیا آپ جانتے ہیں پاکستان میں ایک ایسا گاؤں ہے، جہاں اب سگریٹ کا نام و نشان نہیں ہے؟ جی! پاکستان کا ایک ایسا گاؤں، جہاں سگریٹ نوشی پر پابندی ہے، فیصل آباد میں واقع ماموں کانجن کا ایک نواحی گاؤں 493 گ ب میں چرس، افیون، ہیروئن تو دور کی بات ہے کسی دکان پر سگریٹ تک دستیاب نہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک کمیونٹی اس روایت کو قائم رکھ سکتی ہے تو بطور قوم ہم اپنے آج اور آنے والے کل کو صحت مند کیوں نہیں بنا سکتے؟ جب اس کے نقصانات کو جانتے ہوئے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے اس عادت کا شکار ہوں تو پھر خود سگریٹ پی کر اپنے ہی بچوں کے بیمار والدین کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ خود کو ابھی ذہنی طور پر تیار کیجئے۔ سگریٹ نوشی کو اپنوں کے لیے ترک کیجئے۔

جہاں حکومت کورونا وبا کے حوالے سے کافی سنجیدہ نظر آتی ہے ، وہیں حکومت کو چاہیے کہ سگریٹ پر ٹیکسز بڑھائے۔ قیمت بڑھے گی تو استعمال میں کمی ممکن ہو گی۔ حکومت اگر پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنائے تو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ وزارت صحت کو بھی سگریٹ کی ڈبی پر ''خبردار! تمباکو نوشی مضر صحت ہے، اس کا انجام منہ کا کینسر ہے۔‘‘ سے آگے بڑھ کر سوچنا ہو گا اور ذمہ داری نبھانا ہو گی۔