طاقتور امریکا 20 برس میں افغانستان کے اندر سے جنگ نہ جیت سکا تو پاکستان میں اڈوں سے یہ کیسے ممکن ہی ، وزیر اعظم

اگر امریکہ کو افغانستان کیخلاف ہوائی اڈصے دئے گئے تو پاکستان میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی بڑھے گی،افغانستان میں جنگوں کے دوران پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا، عمران خان کا امریکی اخبار میں مضمون

منگل 22 جون 2021 15:24

طاقتور امریکا 20 برس میں افغانستان کے اندر سے جنگ نہ جیت سکا تو پاکستان ..
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 جون2021ء) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طاقتور امریکا 20 برس میں افغانستان کے اندر سے جنگ نہ جیت سکا تو پاکستان میں اڈوں سے یہ کیسے ممکن ہی ، اگر امریکہ کو افغانستان کیخلاف ہوائی اڈصے دئے گئے تو پاکستان میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی بڑھے گی،افغانستان میں جنگوں کے دوران پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا، 70 ہزار سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے، امریکہ نے پاکستان کو 20 ارب ڈالر امداد فراہم کی ، پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا،ہم نے پہلے ہی بہت بھاری قیمت ادا کردی، اب مزید برداشت نہیں کرسکتے، پاکستان افغانستان میں کسی بھی دھڑے کی حمایت نہیں کرتا، افغان عوام کے فیصلے سے بننے والی حکومت کی تائید کرے گا، افغانستان میں مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ، توقع ہے افغان حکومت بھی بات چیت میں مزید لچک کا مظاہرہ کرے گی ، پاکستان پر الزام تراشی بند کی جائیگی۔

(جاری ہے)

امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے امریکہ کے ساتھ شراکت دار بننے کے لئے تیار ہے تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ہم کسی مزید تنازع کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ انہوں نے لکھا کہ اگر پاکستان افغانستان میں بم برسانے کیلئے امریکا کو اڈے دینے پر راضی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں افغان خانہ جنگی ہوتی ہے تو دہشتگرد بدلہ لینے کیلئے دوبارہ پاکستان کو نشانہ بنائیں گے ،ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

انہوںنے کہاکہ ہم نے پہلے ہی اس میںبھاری قیمت چکائی ہے،اگر امریکہ افغانستان میں 20 سال رہنے کے بعد بھی جنگ نہیں جیت سکا تو پاکستان میں اڈے قائم کرکے کیسے جیت پائیگا ۔ وزیر اعظم نے لکھاکہ افغانستان جو طویل عرصہ تک مشکلات کاشکار رہا ہے،میں ہمارے ایک جیسے مفادات ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہاں تنازع کا سیاسی حل نکلے ، استحکام، اقتصادی ترقی ہو اور دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہ نہ ہو۔

انہوںنے کہاکہ ہم افغانستان میں کسی بھی عسکری طاقت کے اقتدار سنبھالنے کے خلاف ہیں جس سے مزید خانہ جنگی جنم لے گی کیونکہ کوئی ایک گروہ پورے ملک میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا اور یہ کہ کسی بھی حکومت کی کامیابی کے لئے طالبان کی شمولیت ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ماضی میں پاکستان نے متحارب افغان جماعتوں میں سے انتخاب کرکے غلطی کی لیکن ہم نے اس تجربے سے سیکھا ہے، ہمارے کوئی پسندیدہ نہیں ہیں اور کسی بھی ایسی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے جسے افغان عوام کا اعتماد حاصل ہو،تاریخ ثابت کرتی ہے کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔

وزیراعظم نے لکھاکہ پاکستان نے افغانستان میں جنگوں سے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے، 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ہیں ، امریکا نے ہمیں 20 ارب ڈالر کی امداد دی لیکن پاکستانی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا اور پاکستان میں سیاحت اور سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکی کوششوں کا حصہ بننے کے بعد پاکستان کے شراکت دار ہونے کے باعث اسے نشانہ بنایا گیا اور یہ صورتحال تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے گروپوں کی طرف سے ہمارے ملک کے خلاف دہشت گردی کا باعث بنی۔

امریکی ڈرون حملے جس کے خلاف میں نے خبر دار کیا تھا ، جنگ نہیں جیت سکے تاہم ان کی وجہ سے امریکیوں کے لئے نفرت پیدا ہوئی اور دونوں ملکوں کے خلاف دہشت گرد گروپوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ میں ہمیشہ سے کہتا رہا ہوں کہ افغانستان میں مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، امریکا نے پاکستان پر افغانستان سے ملحقہ نیم خودمختار قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ فوجی دستے بھیجنے کے لئے دبائو ڈالا اس سے قبائلی علاقوں میں نصف آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔

انہوںنے کہاکہ صرف شمالی وزیرستان میں 10 لاکھ لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی،اربوں ڈالر کا نقصان ہوا،پورے کے پورے گائوں تباہ ہوئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حملوں میں عام شہریوں کو ہونیوالا ضمنی نقصان پاکستانی فوج کے خلاف خود کش حملوں کا باعث بنا، ان حملوں میں شہید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کی تعداد افغانستان اور عراق دونوں جگہوں پر امریکی فوجیوں کی تعداد سے بھی زیادہ تھی ، اس کے نتیجے میں ہمارے خلاف دہشت گرد ی میں مزید اضافہ ہوا۔

انہوںنے کہاکہ صرف ایک صوبے خیبر پختونخوا میں 500 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ انہوںنے بتایاکہ پاکستان میں 30 لاکھ سے زائدافغان پناہ گزین ہیں ، اگر افغانستان میں مسئلہ کا سیاسی حل نکلنے کی بجائے مزید خانہ جنگی ہوئی تو مزید پناہ گزین آئیں گے اور ہمارے سرحدی علاقوں میں عدم استحکام اور غربت میں اضافہ ہوگا،ہم نے تاریخی طور پر کھلی رہنے والی سرحد پر باڑ کی تنصیب کا کام تقریباً مکمل کر لیا ہے، وزیر اعظم نے اپنے مضمون میں لکھا کہ افغانستان میں امریکااور پاکستان کے مفادات ایک ہیں،ہم بات چیت کے ذریعے امن چاتے ہیں نہ کہ خانہ جنگی ، ہم دہشت گردی کا خاتمہ اور استحکام چاہتے ہیں، ہم ایسے معاہدے کی حمایت کرتے ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں ترقی کے ثمرات کی نگہبانی کریں اور ہم اقتصادی ترقی اور اپنی معیشت کو اٹھانے کے لئے وسط ایشیا میں روابط اور تجارت چاہتے ہیں۔

اگر افغانستان میں مزید خانہ جنگی ہو تی ہے تو ہم سب کو ا س سے نقصان ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر پہلے امریکیوں اور پھر افغان حکومت کے ساتھ بٹھانے کے لئے بہت زیادہ حقیقی سفارتی کاوش کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر طالبان عسکری فتح کا اعلان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے نہ ختم ہونے والا خون خرابہ ہو گا،ہم توقع کرتے ہیں کہ افغان حکومت بھی بات چیت میں مزید لچک کا مظاہرہ کرے گی اور پاکستان پر الزام تراشی بند کی جائیگی یہی وجہ ہے کہ ہم حالیہ توسیعی تکون کے مشترکہ بیانات جس میں روس ،چین اور امریکا شامل ہیں کے ہمراہ ان کا حصہ تھے جس میں غیر مبہم انداز میں اعلان کیا گیا کہ کابل میں طاقت کے ذریعے حکومت قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو سب مل کر مخالفت کریں گے اور اس صورت میں افغانستان درکار غیر ملکی معاونت سے محروم ہوجائے گا۔

انہوںنے لکھا کہ پہلی مرتبہ مشترکہ بیانات افغانستان کے چاروں ہمسائیہ ممالک اور شراکت داروں کی طرف سے بیک آواز اس امر سے عبارت ہیں کہ افغانستان کے مسئلہ پر سیاسی حل کی شکل وصورت کیاہونی چاہیے،یہ خطے میں امن و ترقی کے لئے ایک نئے علاقائی میثاق کا باعث بھی ہو گاجس میں دہشتگردی کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے افغان حکومت کے ساتھ انٹیلی جنس کے تبادلے اور مل کر کام کرنے کے تقاضے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان کے ہمسائیہ ممالک اپنی سرزمین کو افغانستان اور کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کا وعدہ کریں گے اور افغانستان بھی یہی وعدہ کرے گا،یہ میثاق افغانستان کی تعمیر نو کے لئے افغانوں کی مدد کا وعدہ بھی کرے گا۔ وزیر ا عظم نے اپنے مضمون میں لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ علاقائی تجارت اور اقتصادی روابط کی ترقی ، افغانستان میں پائیدار امن سلامتی کی کنجی ہے، مزید فوجی کارروائی کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔