پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کاوش، ٹی ڈی ایف میگنی فائی انٹریکٹو سائنس سینٹر

DW ڈی ڈبلیو اتوار 28 نومبر 2021 13:20

پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کاوش، ٹی ڈی ایف میگنی فائی انٹریکٹو ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 نومبر 2021ء) داؤد فاؤنڈیشن پاکستان میں سائنسی علوم کی ترویج کے لیے ایک عرصے سے کوشاں ہے۔ کراچی میں نو تعمیر شدہ ٹی ڈی ایف انٹریکٹو سائنس سینٹر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا باقاعدہ افتتاح 13 نومبر کو صدر ِ پاکستان عارف علوی نے کیا ہے۔ میگنی فائی سینٹر کے ڈائریکٹر کرسٹوف ایس سپرنگ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں پروجیکٹ کی تفصیلات بتائی ہیں۔

پاکستان کا سائنس کے بغیر کوئی مستقبل نہیں، چومسکی

اپالو سیریز میں معاونت سے سکوت تک، پاکستان کا خلائی پروگرام

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سائنس جس بے ڈھب طریقے سے پڑھائی جاتی ہے وہ ایک عرصے سے تنقید کی زد پر ہے۔ عملی تجربات پر زور دیے بغیر محض سائنسی قوانین کا رٹا لگوانے سے بچے سائنسی مضامین سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ ملک میں سائنسی تحقیق کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے اور پاکستانی تعلیمی ادارے سائنسدان پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے این جی اوز کئی دہائیوں سے کافی متحرک ہیں۔ انہی میں سے ایک تنظیم داؤد فاونڈیشن ہے جس نے سندھ میں کئی سال سائنسی ترویج کی اپنی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کا پہلا انٹریکٹو سائنس سینٹر کراچی میں قائم کیا ہے جسے ''ٹی ڈی ایف میگنی فائی انٹریکٹو سائنس سینٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس سینٹر کو 25 ستمبر 2021 کو عوام کے لیے کھولا گیا جب کہ اس کا باقاعدہ افتتاح رواں ماہ صدر عارف علوی نے 13 تاریخ کو کیا ۔

سینٹر کے قیام کے مقاصد کیا تھے؟

ٹی ڈی ایف میگنی فائی سینٹر کے ڈائریکٹر کرسٹوف ایس سپرنگ نے ڈکی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں بتایا کہ یہ پانچ سال پر محیط سفر ہے۔ اس پروجیکٹ کا آغاز اس طرح ہوا کہ 2016 میں داؤد فاؤنڈیشن پبلک اسکول کراچی میں سائنسی مقابلوں کا انعقاد کیا گیا۔

ان مقابلوں کا مقصد بچوں میں عملی سائنس کے ذریعے سائنسی قوانین کو سمجھنے کی صلاحیت اور تحقیق کا رجحان پیدا کرنا تھا۔ اگلے برسوں میں یہ سائنسی مقابلے کراچی کے تمام سکولوں یہاں تک کہ سندھ اور پنجاب تک پھیلتے گئے۔ اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے 2018 میں داؤد فاؤنڈیشن نے داؤد سینٹر کراچی میں میگنی فائی سائنس اسٹوڈیو بنایا تاکہ بچے یہاں از خود تجربات کر کے سائنس سیکھ سکیں۔

اس کے ایک سال بعد مئی 2019 میں کراچی بھر کے اسکو لوں اور سماجی حلقوں کا بہترین فیڈبیک دیکھ کر میگنی فائی سائنس سینٹر کی تعمیر کا آغاز کیا گیا، جس میں کورونا وائرس کی پابندیوں کی وجہ سے ایک سال کا تعطل آیا۔ ستمبر 2021 میں اس سینٹر کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

کرسٹوف بتاتے ہیں کہ یہ سینٹر دراصل ایجوکیشن اور انٹر ٹینمینٹ کا مرکب ''ایجوٹینمینٹ‘‘ ہے جہاں کھیل، تجربات اور سائنسی ماڈلز کے ذریعے نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی سائنس سمجھنے کا رجحان پیدا کیا جاتا ہے۔

سائنس کی کون سی فیلڈز کو اہمیت دی گئی ہے؟

سائنس سینٹر کے ڈائریکٹر کرسٹوف سپرنگ نے مزید کہا، '' سینٹر کی تعمیر میں ہم نے بنیادی سائنسی فیلڈز کے ساتھ سائنس کی دیگر شاخوں کو بھی اہمیت دی ہے۔ تین منزلہ سینٹر کے گراؤنڈ فلور پر ''کڈز ورلڈ‘‘ بنائی گئی جہاں بچے بہت چھوٹی عمر سے ہیلتھ کیئر، ٹرانسپورٹ، اور تعمیراتی نظام وغیرہ کے بارے میں سیکھتے ہیں۔

اس طرح ہم بچوں کو ان کے ارد گرد کی دنیا میں موجود انٹیگرل سسٹمز (وہ نظام جو زندگی کا لازمی جزو ہیں ) کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔

کرسٹوف کا کہنا تھا کہ سینٹر کے فرسٹ فلور کو انسانی جسم کی ساخت سے متعلق ماڈلز کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی دماغ اپنے ارد گرد کے ماحول سے پیغامات لے کر انہیں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

''ہم نے سینٹر میں '' اوہام‘‘ یا وہم کے کچھ انتہائی دلچسپ تصورات پیش کیے ہیں۔ میگنی فائی سینٹر کے دوسرے فلور کو فزکس اور ریاضی کے بنیادی تصورات کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ انتہائی احتیاط کے ساتھ تیار کیے گئے ماڈلز میں شمسی توانائی، آواز کی لہریں، بجلی، مقناطیسی لہریں اور فزکس کی اہم قوانین کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

‘‘

کرسٹوف کے مطابق ریاضی کے ماڈلز سے چیزوں کی میکینزم کے بجائے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کوئی چیز کیوں کام کرتی ہے اور یہ کہ علمِ ریاضی کا ہماری روزمرہ زندگی میں کتنا اہم کردار ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کو ا جاگر کرنے کی کوشش

ماحولیاتی تبدیلیاں اس وقت دنیا کا حساس ترین موضوع ہے مگر پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی بہت کم ہے۔

کرسٹوف سپرنگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماحولیات کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے سینٹر میں داخلے کے بلکل قریب مینگروز کا ماڈل رکھا ہے جو سینٹر کا واحد'' زندہ‘‘ ماڈل بھی ہے کیونکہ باقی ماڈلز مصنوعی ہیں۔ ''ہم نے پاکستان میں پائی جانے والی مینگروز کی چار میں سے تین انواع یہاں رکھی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو مکمل معلومات ہمارا اسٹاف فراہم کرتا ہے تاکہ ماحول خصوصاﹰ ساحلی علاقوں میں مینگروز کے جنگلات کی اہمیت اجاگر کی جاسکے۔

‘‘

کرسٹوف کے مطابق ماحولیات سے متعلق اصل دیکھنے کی چیز سینٹر کے تیسرے فلور پر ماڈلز ہیں، جو ماحولیاتی انحطاط اور کلائی میٹ چینج سے متعلق ہیں۔ '' ہماری زمین۔ ہماری تخلیق ‘‘ کے نام سے بنائے جانے والے اس فلور کا مقصد پاکستان کے بائیو سفیئر کے متعلق معلومات فراہم کرنا ہے۔ یہ فلور ابھی زیر ِ تعمیر ہے جسے چند ماہ میں عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

کرسٹوف کہتے ہیں کہ سینٹر کی منجمنٹ کا ا رادہ ہے کہ یہاں عوام کو ماحولیاتی انجینئرنگ سے متعلق مزید معلومات فراہم کی جائیں۔وہ کہتے ہیں، '' ہم '' بایو میمکری‘‘ کے انوکھے تصورات کے ذریعے دیکھنے والوں کو یہ سمجھانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ آرٹ اور آرکی ٹیکچر کا نیچر سے کتنا گہرا تعلق ہے اور یہ کہ انسان کس طرح اپنے ماحول سے مطابقت کی صلاحیت استعمال کر سکتا ہے۔

‘‘

مستقبل کی کیا پلاننگ ہے؟

کرسٹوف سپرنگ کا کہنا کہ اس سینٹر کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستانیوں میں غور وفکر اور اپنے مسائل کا حل سائنسی معلومات کے ذریعے تلاش کرنے کی صلاحیت بیدار کرنا ہے۔ یہ محض بچوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہاں آنے والا ہر عمر کا فرد یہاں سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر جاتا ہے۔ ''ہم ایک ایسے پاکستانی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں جدید ٹیکنالوجی، سائنسی اختراعات اور معیاری تعلیم کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کی جائے تاکہ پاکستان کے باصلاحیت نوجوان پوری تندہی کے ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں۔

اگرچہ پاکستان کے دیگر شہرں کو بھی ٹی ڈی ایف میگنی فائی سائنس سینٹرجیسے مراکز کی ضرورت ہے مگر ہمارا فوکس فی الوقت کراچی سینٹر ہی ہے تاکہ سائنسدانوں ، محققین، اساتذہ، طلبا ء ، سرمایہ کاروں اور این جی اوز کو ایک مکمل پلیٹ فارم فراہم کیا جاسکے۔‘‘