سینیٹ اجلاس: سری لنکن شہری کے بیہمانہ قتل کی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور

اراکین سینیٹ کا ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قانونی سقم دور کرنے کیلئے فوری قانون سازی کرنے کا مطالبہ ٹی ٹی پی کے مختلف گروہ افغانستان کے اندر دوبارہ منظم ہورہے ہیں ، ریاست کے اداروں کو جان بوجھ کر اور بلخصوص پارلیمان کو عضو معطل بنایا جارہا ہے،یہ ریاست اب مذید خفیہ معاہدوں کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے، رضا ربانی معاشرے میں مذہبی انتہاپسندی بڑھ چکی ہے ،یہ واقعات ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور سے شروع ہوئے ہیں، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ انتہا پسندی اور شدت پسندی کی فیکٹریاں جنرل ضیاء الحق نے قائم کی ، طاہر بزنجوو دیگر کا اظہار خیال

جمعہ 24 دسمبر 2021 21:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 دسمبر2021ء) ایوان بالا میں اراکین نے سری لنکن شہری پریانتا کمارا کے بیہمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے قوانین پر عمل داری کی ضرورت پر زور دیا ہے اراکین نے ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قانونی سقم دور کرنے کیلئے فوری قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعہ کے روز سینٹ اجلاس کے دوران سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انہوںنے کہاکہ اس سے قبل سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردانہ حملہ ہوا اور ان کے کئی کھلاڑی ذخمی ہوگئے انہوںنے کہاکہ جب معاشرے میں جب برداشت ختم ہوجائے تو متشددانہ رویے حاوی ہوجاتے ہیں اگر ہم اپن تاریخ پر نظر دوڑائیں تو گذشتہ تین دہائیوں سے ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے معاشرے میں مذہبی انتہاپسندی بڑھ چکی ہے اور یہ واقعات ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور سے شروع ہوئے ہیں انہوں نے کہاکہ سیالکوٹ کے واقعے نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے انہوںنے کہاکہ جس طرح ایک ہجوم نے سنگدلی اور بربریت کے ساتھ اس معصوم شخص کی جان لی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انہوں نے کہاکہ اس سے قبل سیالکوٹ میں دو معصوم نوجوانوں کو چوری کے شبے میں پکڑا گیا اور اس کو قانون کے حوالے کرنے کی بجائے اس پر تشدد کرکے ہلاک کیا گیا اور دونوں معصوم بچوں کو بجلی کے کھمبے سے لٹکا کر مارا گیا انہوں نے کہاکہ ایک واقعہ قصور میں ہوا اور ایک مذہبی معاملے پر بھٹہ مزدور میاں بیوی کو جلتے ہوئے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا اورابھی یہ واقعات عدالت میں زیر سماعت تھے کہ لاہور میں ایک حافظ قرآن پر تشدد کرکے زندہ جلا دیا گیا انہوںنے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ ان واقعات میں ایک بھی مجرم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا اور تمام ملزمان بالااخر سپریم کورٹ سے بری ہوگئے اسی طرح قصور کے واقعے میں طاقت کی وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات کے باوجود ملزمان بری ہوگئے انہوںنے کہاکہ یہ ملک میں واقعات کا تسلسل ہے انہوںنے کہاکہ پاکستان میں درجنوں ایسے ہولناک اور اندوہناک واقعات ہوئے ہیں جس پر دہشت گردی کااطلاق کیا گیا اور ان مقدمات کے ٹرائل بھی ہوئے اور پولیس نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹیں تیار کی مگر یہ ان مقدمات میں ملوث عناصر کو قوانین میں سقم کی وجہ سے بری کر دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ اس پارلیمان کی سب سے بڑی ذمہ داری قانون سازی کرنا ہے اور ایسے قوانین جن پر عملدرآمد کرنا ممکن ہو اور جس سے غریب ،مظلوم اور پسے ہوئے شخص کو انصاف مل سکے انہوں نے کہاکہ عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اس خلاء کو پر کرنا ہوگا جس کی وجہ سے مظلوم کو انصاف نہیں ملتا ہے انہوںنے کہاکہ آج منصوبہ بندی سے جرم کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں سزائوں میں اضافہ کرنا خوف کی وجہ نہیں بنتا ہے ہمارے ہاں سزائے موت ہے اور یورپ سمیت بہت سارے ممالک نے سزائے موت ختم کردی ہے مگر وہاں پر جرائم کم اور ہمارے ہاں زیادہ ہے جس کی وجہ قانون پر عمل داری ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس ملک کے عوام اور پاکستان کے استحکام کیلئے سیاست سے بالا تر ہوکر سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ ہم نے برائیوں کو روکنے کی بجائے ریت میں سر دینے کو غنیمت جانا ہے ہم معاملات کو حل کرنے کی بجائے اس سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلام نے ہمیں برداشت کا سبق دیا ہے ہمارے نبی پاک نے لوگوں سے محبت کی تلقین کی ہے انہوںنے کہاکہ پولیس والے ڈیوٹی کے دوران شہید ہوجاتے ہیں اور ہم ان کے قاتلوں سے مذاکرات کرتے ہیں اور کالعدم تنظیموں سے بات چیت کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ معاشرے سے برداشت ختم کی وجہ سے نسلوں کو اس کے نتائج بھگتنا ہونگے انہوں نے کہاکہ آج بتایا جائے کہ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے ہمیں سیالکوٹ واقعے کی شدید مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ فوجداری نظام انصاف پر مل بیٹھ کرکام کرنا چاہیے اور معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اس موقع پر قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کہاکہ سری لنکن شہری پریانتا کمارا کے ساتھ جو اندوہناک سانحہ پیش آیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انہوں نے کہاکہ اس واقعے پر حکومت سے لیکر پوری قوم نے ندامت کا اظہار کیا ہے یہ واقعہ شدت پسندی کے اس رجحان کی جانب ہماری توجہ دلاتا ہے جس کا زہر ایک عرصے سے ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک اقلیت اس کوشش میں ہے کہ معاشرے کو یرغمال بنایا جائے انہوںنے کہاکہ ایک معصوم کی لاش کے گرد زندہ لاشوں کا گروہ موجود تھا اور اسی تاریکی کے درمیاں ہم نے ملک عدنان کی صورت میں ایک روشنی دیکھی اور ملک کی اکثریت کا نمائندہ بن کر نکلا اور اس سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستانی قوم اس اقلیتی گروپ کے ساتھ نہہں ہے اور ہم نے دیکھا کہ سیاسی جماعتوں ،علمائ اور معاشرے کے تمام طبقوں نے اس واقعے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا انہوں نے کہاکہ ہم اپنے پڑوس میں دیکھتے ہیں کہ ایسے واقعات حکومتی سرپرستی میں ہوتے ہیں ہم سب نے مل کر ایسے واقعات کی نفی کی ہے انہوں نے کہاکہ یہ درست ہے کہ یہ شدت پسندی ایک دن میں نہیں ہوئی ہے اس کی ایک تاریخ ہے یہ واقعات 1980کی دہائی سے شروع ہوئے ہیں جب مذہبی شدت پسندی کو سرکاری سطح پر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا اور یہ آج بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے اور ہر حکومت کو ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑاانہوںنے کہاکہ آج اہم سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کا تدارک کس طرح ممکن ہے اور ہماری ذمہ داری کیا ہے اور اپنے بچوں کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے یہ مظالم اس ہستی کا نام لیکر کئے جاتے ہیں جو کہ رحمت العالمین ہے جس کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے انہوں نے کہاکہ ہماری اس شعور کے ساتھ وابستگی کیوں نہیں ہے جو ہمارے نبی پاک نے ہمیں دیا ہے اسلام ایک مکمل دین ہے اور سیرت نبی اس کی تفسیر ہے انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے بچوں کی ذہن سازی کرنی ہوگی انہوںنے کہاکہ آج ہمیں شدت پسندی کے خلاف بھی اسی جذبے اور یکجہتی کے ساتھ لڑنے کا عہد کرنا ہوگا۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہاکہ اگر پارلیمان ایسے واقعات کی اصل وجہ کو نہیں پکڑے گی اور ایسے واقعات آگے بھی چل کر ہمارے سامنے آئیں گے انہوںنے کہاکہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان کی ریاست نے 1947سے لیکر آج تک دائیں بازور اور جہادی جماعتوں کو آگے بڑھایا اوراس سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے جس کی وجہ سے ملک عدم توازن کا شکار ہوگیا۔

انہوںنے کہاکہ انتہاء پسند تنظیموں میں ملک میں اپنی عدالت بنائی مگر ریاست خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی اسی طرح عسکری تنظیموں سے اپنی کاروائیاں کی اور ریاست کی رٹ کو پارہ پارہ کردیا مگر ریاست خاموش تماشائی بن کر کھڑی رہی اور جب ایک ایسی ریاست سامنے ہو تو ملک میں عسکر یت پسندی آگے بڑھے گی انہوںنے کہاکہ ایک جانب افغانستان میں طالبان ہیں جو اپنی قوت کے ساتھ جیتے ہیں آج ہم ان کیلئے بات تو کر رہے ہیں مگر کیا وزیر خارجہ یہ بتائیں گے افغان فورسز نے پاکستانی فورسز کو سرحدوں پر باڑ لگانے سے روک لیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ٹی ٹی پی کے مختلف گروہ افغانستان کے اندر دوبارہ منظم ہورہے ہیں انہوںنے کہاکہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور دونوں کے مابین فائر بندی کے باوجود سیکورٹی فورسز کے جوان اور افسران شہید ہورہے ہیں اس پارلیمان کو بتایا جائے کہ مذاکرات کس طرح ہورہے ہیں انہوں نے کہاکہ القاعدہ کے مختلف گروپس سرحدوں کے ساتھ موجود ہیں ہماری حکومت کا ان کے ساتھ کیا رویہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاست کے اداروں کو جان بوجھ کر اور بلخصوص پارلیمان کو عضو معطل بنایا جارہا ہے۔یہ ریاست اب مذید خفیہ معاہدوں کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے ہر پاکستانی کا یہ حق ہے کہ اسے یہ علم ہو کہ ریاست کا آئندہ کا ڈھانچہ کس شکل کا ہوگانیشنل ایکشن پلان پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے اور اس پر پارلیمان میں بحث کی ضرورت ہے۔

انہوںنے کہاکہ جب تک ریاست اس پارلیمان کو جواب دہ نہیں ہوگی اس وقت تک ایسے واقعات رونما ہونگے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہاکہ سیالکوٹ میں ہم نے جو کچھ دیکھا وہ نہایت دردناک اور تکلیف دہ تھا ہمارے ملک میںہجوم قانون ہاتھ میں لیتی رہی ہے اور ہمارے قانون دان اور جج صاحبان آئین شکنوں کو تحفظ دیتے رہے ہیں،انتہا پسندی اور شدت پسندی کی فیکٹریاں جنرل ضیاء الحق نے قائم کی تھی قوم کو آمروں نے سوائے بدنامی اور رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا وہ طویل مارشل لاء ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہور ہا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ ایک سپاہی جنگ کے میدان میں موزوں جبکہ سیاست کے میدان میں نہایت ناموزوں ہوتا ہے انہوںنے کہاکہ فیصلہ ساز اداروں میں بیٹھنے والی شخصیات دہشت گردی اور انتہاء پسندی کو مکس کردیتے ہیں اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مظبوط ہوں تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے مگر انتہا پسندی پر قابو پانا ممکن نہیں ہے یہ انسان کی سوچ پر منحصر ہے ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعدادسمیت سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بیٹھنے والے افسران انتہاء پسندی کا شکار ہیں اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اس کو ختم کیا جائے تو اس سلسلے میں ریاست از خود انتہاپسند تنظیموں کی سرپرستی نہ کریں اور مذہبی اور سیاسی لیڈر ،والدین اور اساتذہ سب مل کر انتہا پسندی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں سینیٹر اعظم سواتی ،سینیٹر ہدایت اللہ ،سینیٹر سردار شفیق ترین،سینیٹر مشتاق احمد خان ،سینیٹر نصیب اللہ بازئی،سینیٹر مولانا عطاء الرحمن،سینیٹر ثمینہ ممتاز،سینیٹر پروفیسر ساجد میر ،سینیٹر عرفان صدیقی،سینیٹر دنیش کمار، سینیٹر فیصل جاوید اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے سری لنکن شہری کی بیہمانہ ہلاکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون سازی کرنے پر زور دیا ہے انہوں نے کہاکہ اس واقعے نے ہمارے ملک کے چہرے کو بدنام کیا ہے مقررین نے کہاکہ یہ کسی حکومت یا سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا واقعہ ہے دہشت گردی ایک رویہ ،سوچ اور رجحا ن ہے آج ہمارے سیاست میں بھی یہی رویے جنم لے رہے ہیں جو حکمرانوں سے رفتہ رفتہ عوام میں چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جب قانون کی گرفت کمزور ہو اور عد لیہ سے اعتماد اٹھ چکا ہو تو ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اس موقع پر قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد نے سری لنکن شہری پریانتا کمارا کے حوالے سے ایک مذمتی قراردار پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا چیئرمین سینیٹ نے کہاکہ یہ قرارداد سینیٹ کا ایک وفد لیکرسری لنکا کے سفارت خانے جائے گااور سفیر کو پیش کرے گا۔