عالمی برادری خوراک کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران پر قابو پانے کے لیے مشترکہ کوششوں کے ساتھ مل کر کام کرے ،وزیر خارجہ

جمعرات 19 مئی 2022 22:57

عالمی برادری خوراک کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران پر قابو پانے کے لیے مشترکہ ..
نیویا رک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2022ء) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ خوراک کے بڑھتے ہوئے ایک ایسے عالمی بحران پر قابو پانے کے لیے مشترکہ کوششوں کے ساتھ مل کر کام کرے جس سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں،خوراک کا بحران سرحدوں کا پابند نہیں اور کوئی بھی ملک تنہا اس پر قابو نہیں پا سکتا،ؒ لاکھوں لوگوں کو بھوک سے نکالنے کا ہمارا واحد موقع مل کر، فوری اور یکجہتی کے ساتھ کام کرنا ہے، اگر ہم مل کر کام کریں تو ہماری دنیا میں ہر ایک کے لیے کافی خوراک ہے۔

بلاول نے مزید خبردار کیا کہ اگر آج اس مسئلے کو حل نہیں کرتے تو آنے والے مہینوں میں عالمی خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ’’گلوبل فوڈ سکیورٹی‘‘کے موضوع پر وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ خوراک کا بحران سرحدوں کا پابند نہیں اور کوئی بھی ملک تنہا اس پر قابو نہیں پا سکتا۔

لاکھوں لوگوں کو بھوک سے نکالنے کا ہمارا واحد موقع مل کر، فوری اور یکجہتی کے ساتھ کام کرنا ہے۔ بھوک کا خاتمہ ہماری دسترس میں ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں تو ہماری دنیا میں ہر ایک کے لیے کافی خوراک ہے۔ بلاول نے مزید خبردار کیا کہ اگر آج اس مسئلے کو حل نہیں کرتے تو آنے والے مہینوں میں عالمی خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی سطح پر بھوک کی سطح ایک نئی بلندی پر ہے۔

صرف دو سالوں میں شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار لوگوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے، جو کہ 135 ملین سے آج 276 ملین ہو گئی ہے۔ نصف ملین سے زیادہ لوگ قحط کے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں 2016 کے بعد سے 500 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، یہ خوفناک اعداد و شمار ہیں جو تنازعات کی وجہ بن سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے حکومتوں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دیگر کے لیے قلیل مدتی بحران کے حل اور طویل المدتی تباہی کو روکنے کے لیے پانچ فوری اقدامات تجویز کیے ہیں۔

سب سے پہلے، انہوں نے کہا کہ خوراک اور کھاد کی سپلائی بڑھا کر فوری طور پر مارکیٹوں پر دباؤ کم کرنا چاہیے۔ برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں کے لیے سرپلسز مہیا کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے باوجود یوکرین کی خوراک کی پیداوار کے ساتھ ساتھ روس اور بیلاروس کی طرف سے تیار کردہ خوراک اور کھاد کو عالمی منڈیوں میں شامل کیے بغیر خوراک کے بحران کا کوئی موثر حل نہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ روس کو یوکرین کی بندرگاہوں میں ذخیرہ شدہ اناج کی محفوظ برآمد کی اجازت دینی چاہیے۔ اسی طرح متبادل نقل و حمل کے راستوں کو تلاش کیا جا سکتا ہے جبکہ روسی خوراک اور کھادوں کی عالمی منڈیوں تک بلاواسطہ رکاوٹوں کے بغیر غیر محدود رسائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے پر روسی فیڈریشن، یوکرین، ترکی، امریکہ، یورپی یونین اور کئی دیگر اہم ممالک کے ساتھ رابطہ کر رہا ہوں۔

میں پر امید ہوں، لیکن ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پیچیدہ سکیورٹی، اقتصادی اور مالیاتی اثرات کے لیے پیکج ڈیل تک پہنچنے کے لیے ہر طرف سے خیر سگالی کی ضرورت ہے۔ دوسرا، انہوں نے کہا کہ سماجی تحفظ کے نظام کو ہر ضرورت مند کا احاطہ کرنے کی ضرورت ہے، جس میں خوراک، نقد رقم اور پانی، صفائی ستھرائی، غذائیت، اور ذریعہ معاش کے صحیح امتزاج شامل ہیں۔

تیسرا یہ کہ فنانس ضروری ہے، ترقی پذیر ممالک کو لیکویڈیٹی تک رسائی ہونی چاہیے تاکہ وہ ہر ضرورت مند کو سماجی تحفظ فراہم کر سکیں۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو عالمی قرضوں کے بحران کو روکنے کے لیے فراخدلی سے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ مالیاتی بحران کے حل کے بغیر خوراک کے بحران کا کوئی حل نہیں ہے۔ سرکاری ترقیاتی امداد پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے، اس کو دوسری ترجیحات کی طرف موڑنا کوئی آپشن نہیں ہے جبکہ دنیا بڑے پیمانے پر بھوک کے دہانے پر ہے۔

بلاول نے کہا کہ حکومتوں کو زرعی پیداوار کو فروغ دینا چاہیے اور خوراک کے لچکدار نظام میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ کسانوں کے لیے ایندھن اور کھاد کی موجودہ بلند قیمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ حکومتوں کو سبسڈی کے ساتھ ان کی مدد کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور انھیں منڈیوں سے منسلک کرنا چاہیے۔ پانچواں یہ کہ قحط کو روکنے اور بھوک کو کم کرنے کے لیے انسانی بنیادوں پر کارروائیوں کو مکمل طور پر فنڈز فراہم کیے جائیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے پاس قحط کو روکنے کا ایک ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ ہے لیکن انہیں وسائل کی ضرورت ہے۔ اور ان وسائل کو انسانی بنیادوں پر خوراک کی خریداری کو ٹیکسوں اور دیگر پابندیوں سے استثنیٰ دے کر زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ خوراک، توانائی اور مالیات سے متعلق گلوبل کرائسز ریسپانس گروپ کمزور لوگوں پر بحران کے اثرات سے نمٹ رہا ہے، اس کی نشاندہی کر رہا ہے اور ان کے حل کی طرف زور دے رہا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ موسمیاتی ایمرجنسی عالمی بھوک کا ایک اور محرک ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران، 1.7 بلین لوگ انتہائی موسمی اور آب و ہوا سے متعلق آفات سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ- 19 وباکیوجہ سے اقتصادی بحران نے خوراک کے عدم تحفظ کو بڑھا دیا ہے، آمدنی میں کمی اور سپلائی چین میں خلل آیا ہے، وبائی مرض سے غیر مساویانہ بحالی کے رحجان نے پہلے ہی بہت سے ترقی پذیر ممالک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے اور مالیاتی منڈیوں تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس یوکرین تنازعہ اور اس کے فوڈ سکیورٹی پر اثرات کو اجاگر کیا اور کہا کہ گزشتہ ایک سال میں خوراک کی عالمی قیمتوں میں تقریباً ایک تہائی، کھاد کی نصف سے زیادہ اور تیل کی قیمتوں میں تقریباً دو تہائی اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے پاس ان بھاری اضافے کے دھچکے کو کم کرنے کے لیے مالی گنجائش کی کمی ہے اور وہ مشکلات کا شکار ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول نے مزید کہا کہ بھوک کی بلند شرح افراد، خاندانوں اور معاشروں پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔