کم از کم اجرت پچاس ہزار کی جائے، مزدور رہنما

تمام ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے، کراچی میں تمام اداروں کے مزدوروں کی مشترکہ ریلی اشیاء خودونوش ، بجلی، گیس کی قیمتیوں میں کمی کی جائے، مفت تعلیم و صحت فراہم کی جائے، ریلی سے مقررین کا خطاب

پیر 1 مئی 2023 22:30

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 مئی2023ء) نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے زیراہتمام یکم مئی کے مزدور شہدا کی یاد میں’’مزدور ریلی ‘‘نکالی گئی جس کی قیادت کامریڈ زہرا خان اور کامریڈ گل رحمان کر رہے تھے۔ ریلی کا آغاز ریگل چوک صدر سے ہوا اور کراچی پریس کلب پر اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی میں بڑی تعداد میں محنت کشوں ، سیاسی ، طلبہ ، نوجوانوں، سماجی و انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔

ریلی کے شرکا نے شکاگو کے مزدور شہدا، انقلابی رہنماں کی تصاویر اور سرخ پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ ریلی کے دوران مزدور اپنے حقوق اور مطالبات کے لئے نعرے لگا رہے تھے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوتے محنت کشوں کے رہنماں نے کہا کہ پاکستان کا مزدور طبقہ ، حکمران طبقات کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو یکسر مسترد کرتا ہے اور موجودہ سیاسی و معاشی بحران میں حکم رانوں کی بے حسی روا اور محنت کش عوام سے روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کرتا ہے۔

(جاری ہے)

حکم رانوں نے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت محنت کشوں کے وہ بنیادی حقوق جو 1886 کی مزدور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہو چکے تھے سلب کر رکھے ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ حقوق آئین اور قانون کتابوں میں تو موجود ہیں لیکن کہیں بھی نافذ عمل نہیں ہیں۔ اس ملک کا سیاسی و معاشی نظام صرف پانچ فی صد اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اس اشرافیہ نے محنت کشوں اور ان کی تنظیموں کو مختلف سازشوں کے ذریعے عضو معطل بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان جس گہرے سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران کا شکار ہے وہ حکم رانوں کی سات دہائیوں سے مسلط کردہ ناعاقبت اندیش پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج بھی کروڑوں انسان روٹی اور روزگار کے متلاشی ہیں جب کہ حکومت ، اپوزیشن ، عدالتیں اور مقتدرہ قوتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے باہم دست و گریباں ہیں جس سے ان کی عوام دشمنی عیاں ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پانچ فی حکم ران گروہ کو چھوڑ کر ملک کے تیئس کروڑ انسان مہنگائی، بے روزگاری ، سیاسی بے یقینی اور لاقانونیت کی وجہ سے مسلسل خوف ، کرب اور اذیت کے ماحول میں زندگی گزرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ذرائع پیداوار اور ریاست پر قابض اشرافیہ نے اپنے لیے ملک اور بیرونی ملک دولت کے انبار جمع کر رکھے ہیں جبکہ ملک کا عام شہری خصوصا محنت کش طبقہ اکیس ویں صدی میں بھی صاف پانی، تعلیم ، صحت، ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔

ملک کی نصف آبادی خط افلاس سے نیچے جانوروں سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ فیکٹریوں ، کارخانے اور کارگاہیں جدید دور کے بندی خانے ہیں جہاں آٹھ کروڑ سے زائد محنت کش دائمی غلام بنا دئیے گئے ہیں۔ مزدور رہنماں نے کہا کہ انیس سو تھتر کے آئین کے آئین کی گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے لیکن شرم کی بات ہے کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود اس میں موجودہ انسانی حقوق سے متعلق شقوں پر رتی بھر بھی عمل نہیں کیا گیا جس میں ریاست نے شہریوں کو رہائش، روزگار، تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا ذمہ لیا تھا۔

آئین کی ان بنیادی شقوں کی خلاف ورزی پر ذمہ داران کے خلاف آئین شکنی کے مقدمات درج ہونے چاہیئں۔ محنت کشوں کے لئے جمہوریت، تحریر و تقریر اور تظیم سازی کی آزادی حقیقی معنوں میں سلب ہو چکی ہے۔ ملک کا پونے تیرہ کروڑ ووٹرز میں محنت کشوں کی تعداد پونے آٹھ کروڑ سے زائد ہے لیکن اسمبلی میں ان کی نمائندگی صفر ہے۔ فیکٹریوں اور کارگاہوں میں جمہوری حقوق قتل کر دئے گئے ہیں۔

آج صورت حال یہ ہے کہ ننانوے فیصد محنت کش یونین سازی اعر اجتماعی سوداکاری کے آئینی جمہوری حق سے محروم ہیں ، قانونی طور پر لازم ملازمت کا تحریری معاہدہ پچانوے فی صد سے زائد مزدوروں کو فراہم ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسرڈ کیا جاتا ہے۔ کارگاہوں میں صحت و سلامتی ناپید ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے صنعتی حادثات میں پچھلے دس برسوں میں سو فی صد اضافہ ہوا ہے۔

بلدیہ فیکٹری سانحہ کے دس برس گزرنے کے باوجود کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ ٹیکسٹائل گارمنٹس کے شعبہ میں ہیلتھ اور سیفٹی کی صورت حال تشویش ناک حد تک مخدوش ہے۔ بین الاقوامی فیشن برانڈ جن فیکٹریوں سے مل بنواتے ہیں وہاں مزدور حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ٹیکسٹائل، گارمنٹس ،جفت سازی اور چمڑے کے شعبہ میں ہیلتھ اور سیفٹی کو بہتر بنانے کے لئے "پاکستان اکارڈ" جیسے اہم معاہدے پر کئی ایک نامور بین الاقوامی برانڈز نے سائن کئے ہیں جس سے آنے والے دنوں میں کام گاہیں مزدوروں کے لئے محفوظ ہو سکیں گی۔

بہت سے بین الاقوامی برانڈز ابھی تک اس اہم معاہدے کا حصہ نہیں بنے انہیں سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اس میں شامل ہو کر مزدوروں کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں۔ محنت کشوں کی ایک بڑی تعدادجو عورتوں پر مشتمل ہے ، ایک اندازے کے مطابق بائیس فیصد سے زائد ہے، انہوں مردوں کی نسبت بیس سے چالیس فیصد کم اجرت دی جاتی ہے۔ جبکہ بیگار ( بنااجرت) مزدوری میں تیرہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق مرد اور عورت مزدوروں کے درمیان اجرتوں میں تفاوت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں عورتیں اور بچے زیادہ بھوک مری ، بیماری اور غربت کا شکار ہیں۔ کام کی جگہوں پر عورتیں خصوصا محنت کش عورتوں کے لئے گھر سے لے کر کام کی جگہوں پر سماجی قبولیت اور رواداری میں خوف ناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ کارگاہوں میں مزدور عورتوں کے لئے ہراسگی کا شکار ہونا معمول بن چکا ہے۔

صنعتی علاقوں میں لاقانونیت عروج پر ہے ، فیکٹریاں میں پندرھویں صدی کا ماحول ہے جہاں مزدور اجرتی غلام بنا دولت کے انبار پیدا کر رہا ہے۔ کام کے محدود اوقات کار جو کہ آٹھ گھنٹے روزانہ ہیں انہیں مختلف حیلے بہانوں سے لا محدود کر دیا ہے۔ بلا اجرت کے جبرا" اوور ٹائم ، ہفتہ وار اور سرکاری چھٹی کے دنوں میں کام لینے جیسے غیر انسانی اقدامات فیکٹری مالکان کا وطیرہ بن گیا ہے۔

ٹھیکیداری نظام جو لیبر قوانین کے صریحا" خلاف ہے اور جسے سپریم کورٹ بھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے ، پچانوے فی صد فیکٹریوں میں رائج ہے۔ اس صنعتی لاقانونیت پر لیبر ڈپارٹمنٹ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے بل کہ یہ سب کچھ اس کی آشیرباد سے ہو رہا ہے۔ نج کاری کے نام پر پبلک اہمیت کے حامل ادارے اونے پونے داموں بیچنے کے منصوبے بنائے جارہے جس کے نتیجے میں لاکھوں محنت کش بے روزگار ہو جائیں گے۔

ضروری معاشی اقدامات کی بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں خصوصا" آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ایما پر ملکی معیشت اور شہریوں کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔ حکم رانوں نے ان مالیاتی اداروں کے منصوبوں اور پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ملک کو دیوالیہ کر دہا ہے۔ زرعی اراضی کی بے زمین ہاری ، کسان خان دانوں میں مفت تقسیم، غیر پیداواری اخراجات بشمول دفاعی و نوکرشاہی کیاخراجات میں کمی اور پڑوسی ممالک سے تجارتی تعلقات کے فروغ کے ذریعے جاری معاشی بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔

مزدور رہنماں نے اعلان کیا کہ جاری معاشی و سیاسی بحران سے نجات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے محنت کشوں کا بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل شعوری طور پر منظم ہونے ہی میں مضمر ہے۔ مزدور ریلی میں مطالبہ کیا گیا کہ = کم از کم اجرت پچاس ہزار مقرر کی جائے۔ = تمام ورکرز بشمول گھر مزدورں کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے۔

= بین الاقوامی فیشن برانڈز لیبر قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائیں ، وہ برانڈ جنہوں نے اب تک پاکستان آیکارڈ پر دستخط نہیں کئے وہ جلد از جلد پر معاہدے کا حصہ بنے تاکہ کارگاہیں محفوظ ہو سکے ۔ = کام کی جگہوں کو ہراسگی سے پاک کیا جائے۔ فیکٹری کارخانون اور کارگاہوں میں لیبر قوانین پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔= لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔

= یونین سازی اور بنک کے ذریعے اجرتوں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔= ٹھیکہ داری نظام کو جرم قرار دیا جائے۔ = ہر شہری کو تعلیم، صحت اور رہائش فراہم کی جائے، ٹرانس پورٹ کا مربوط نظام وضع کیا جائے۔ =سام راجی تسلط سے آزادی اور حقیقی جمہوریت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ تمام غیر ملکی قرضہ جات کی ادائیگی کو موخر کرنے کا بین الاقوامی طریقہ اختیار کیا جائے۔

= نج کاری کے نام پر لوٹ سیل کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اسٹیل ملز کے ملازمین بشمول ریٹائرڈ ملازمین کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔ واپڈا اور دیگر اداروں کی نج کاری اور انہیں تقسیم کرنے کا منصوبہ ترک کیا جائے۔ =غیر پیداواری بشمول دفاعی اخراجات میں پچاس فی صد کمی جائے۔ = پڑوسی ممالک خصوصا بھارت، ایران اور چین سے تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔

=جمہوریت کی مضبوطی اور ملکی معیشت کا پہیہ رواں کرنے کے لیے زرعی اصلاحات کا آغاز کیا جائے، غیر حاضر زمین داری ختم کرتے ہوئے قابل کاشت زرعی اراضی بے زمین ہاری، کسان خان دانوں میں مفت تقسیم کی جائے۔= ملکی ایکسپورٹ بڑھانے والی صنعتوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی میں ریاستی مدد اور رعایت فراہم کی جائے ۔ = انتخابی اصلاحات متعارف کی جائیں تاکہ محنت کشوں، عورتوں اور مظلوم طبقات کی ابادی کے تناسب سے نمائندگی یقینی بنائی جا سکے۔

= بااختیار جمہوری بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے۔ =عورتوں، اقلیتوں، ٹرانس جینڈر کو برابر کا شہری عملا تسلیم کیا جائے۔ = تمام امتیازی قوانین ختم کیے جائیں۔ = ماورا قانون و آئین شہریوں کی گم شدگیوں کا سلسلہ روکا جائے۔ = تمام ماحول دشمن منصوبوں پر عمل درآمد روکا جائے۔ = ترقی کے نام عوام کو بے گھر کرنے کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے۔ مزدور ریلی کے شرکا میں ناصر منصور، رفیق بلوچ ، ریاض عباسی، گل رحمان (نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن)، اسد اقبال بٹ، ہوم رائٹس کمیشن آف پاکستان، حبیب الدین حنیدی پیپلز لیبر بیورو ، کرامت علی نیشنل لیبر کونسل ، ایوب قریشی ، نیشنل پارٹی ،جنت، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین ، سعید بلوچ ، پاکستان فشر فورک فورم ، ڈاکٹر اصغر دہشتی ، واحد بلوچ، غلام محبوب ، پی سی ہوٹل یونین، قمر الحسن ، آئی یو ایف ، عینی یعقوب، پروین بانو (ہوم بیسڈوومن ورکرز فیڈریشن)، سائرہ فیروز، زہداہ پروین (یونائیٹڈ ایچ بی گارمنٹس ورکرزیونین)، عاقب حسین، بلاول ( نوجوان تنظیم الٹرنیٹ)، بخت زمین ( سائیٹ لیبر فورم )، محمد صدیق اور زرینہ خاتون (سانحہ بلدیہ ایسوسی ایشن )، اقبال ، ہمت پھلپوتو (ٹیکسٹائل جنرل ورکرز یونین)، بشری آرئیں ،آل لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام یونین، حسین بادشاہ، ڈاک لیبر یونین، ذوالفقار شاہ، نالج فورم ، مرزا مقصود، پاکستان اسٹیل رئیٹائر ایمپلائز ایسوسی ایشن ، ساجد ظہیر ، انجمن ترقی پسند مصنفین و دیگر شامل تھے۔