حافظ گل بہارد کی حوالگی کا مطالبہ، پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا امکان

DW ڈی ڈبلیو بدھ 29 نومبر 2023 21:40

حافظ گل بہارد کی حوالگی کا مطالبہ، پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا امکان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 نومبر 2023ء) پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس حوالے سے کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا لیکن پاکستانی ذرائع ابلاغ پر یہ خبر آج شہ سرخیوں کے ساتھ لگی جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس خبر کی دھوم مچی رہی۔ آسلام آباد کا الزام ہے کہ حافظ گل بہادر پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مطالبہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا عکاس ہے اور یہ کہ کابل کے کے لیے اس مطالبے کو ماننا بہت مشکل ہے۔

ڈی ڈبلیو نے جب اس حوالے سے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا، تو دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک تحریری پیغام میں بتایا، ''ہم نے اس مسئلے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے اور افغان سفارت خانے سے ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے ہم اطلاعات شیئر کرنا نہیں چاہتے۔

(جاری ہے)

‘‘

پاکستان کا الزام ہے کہ جب سے افغان طالبان اقتدار میں آئے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان کی پولیس، فوج اور عام شہریوں پر حملوں میں شدت آئی ہے۔ پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ نے حال ہی میں کہا تھا کہ 26 نومبر کو بنوں میں ایک خودکش حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کی ہے اور یہ کہ خود کش حملہ آور افغان نیشنل تھا۔

پاکستان کے وزیراعظم نے حال ہی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ ملک میں ہونے والے کچھ دہشت گردانہ حملوں میں افغان شہری بھی ملوث پائے گئے ہیں۔

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق افغان سفارت خانے کو کہا گیا ہے کہ بنوں حملے کی مکمل تفتیش کر کے دہشتگردی میں ملوث افراد اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کا پتہ لگایا جائے اور ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

تمام دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف فوری طور پر قابل تصدیق اقدامات کیے جائیں۔ حافظ گل بہادر کو پکڑ کے پاکستان کے حوالے کیا جائے اور افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکا جائے۔

حوالگی مشکل ہے

دہشت گردی اور انتہا پسندی پہ گہری نظر رکھنے والے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے مطالبات بہت سخت ہیں اور خصوصاً حافظ گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ افغان حکومت کے لیے ماننا بہت مشکل ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی و تجزیہ نگار شمیم شاہد کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ اس مطالبے کو مانیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حافظ گل بہادر اور دوسرے پاکستانی جنگجوؤں نے دہشت گردی کی جنگ کے دوران افغان طالبان کی بہت مدد کی ہے۔ لہذا افغان طالبان کے لیے بڑا مشکل ہوگا کہ وہ سلام آباد کے اس مطالبے کو مانیں۔

‘‘

پختون دانشورڈاکٹر فرحت تاج کا کہنا ہے کہ کیونکہ حافظ گل بہادر ماضی میں حقانی نیٹ ورک کے بہت قریب رہے ہیں، اس لیے حوالگی ممکن نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ حافظ گل بہادر اور ان کے گروپ کے لوگوں کے قبائلی اور نظریاتی رشتے بھی افغان طالبان کے ساتھ ہیں۔ افغانستان میں کچھ عناصر ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

لہذا حوالگی آسان نہیں ہے۔‘‘

جمیعت علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا تھا، تو وہ حافظ گل بہادر کو کیسے پاکستان کے حوالے کر دیں گے۔ محمد جلال الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' حافظ گل بہادر روس اور امریکہ کے خلاف لڑے ہیں۔ تو افغان طالبان ان کو کیسے حوالے کر سکتے ہیں۔

‘‘

کابل اور اسلام آباد میں کشیدگی

خیال کیا جاتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کی وجہ سے اسلام آباد میں کابل کے حوالے سے سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر فرحت تاج کا کہنا ہے کہ کشیدگی کی اصل وجہ ڈیورنڈ لائن ہے۔ ''افغانستان میں پشتونوں کی ایک بڑی تعداد ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی بارڈر تسلیم نہیں کرتی جبکہ اسلام آباد کی رائے اس سے قطعی مختلف ہے۔

اس مسئلے پر کشیدگی مختلف شکلوں میں نمودار ہوتی ہے۔‘‘

محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جس طرح افغان مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی اور اب جس طرح کابل حکومت سے مطالبات کیے جا رہے ہیں اس کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی۔

مطالبہ کیوں کیا گیا؟

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی و تجزیہ نگار محمود جان بابر کا کہنا ہے پاکستان اور افغان طالبان کے اچھے تعلقات کے درمیان اس وقت ٹی ٹی پی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ''پاکستان نے باضابطہ طور پر اسی لیے حافظ گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ امکان ہے کہ اگر مطالبہ نہیں مانا جاتا تو سرجیکل اسٹرائکس بھی کی جا سکتی ہیں۔‘‘

حافظ گل بہادر کون ہیں؟

حافظ گل بہادر جمعیت علماء اسلام کے طلبہ ونگ 'جمعیت طلبہ اسلام‘ سے ماضی میں وابستہ رہے ہیں۔

شمالی وزیرستان کے کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے قریب بھی رہے ہیں۔ تاہم محمد جلال الدین ایڈوکیٹ اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ گل بہادر کا جمعیت کے طلبہ ونگ سے تعلق رہا ہے۔

تجزیہ نگار ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ حافظ گل بہادر ٹی ٹی پی کے ابتدائی رہنماؤں میں سے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''حافظ گل بہادر ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے رہے ہیں۔

جب پاکستانی ریاست ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لے رہی تھی تو اس وقت اس نے حافظ گل بہادر کو ٹارگٹ نہیں کیا کیونکہ یہ گڈ طالبان کی فہرست میں شامل تھے۔‘‘

حافظ گل بہادر نے پاکستان کی فوج کے ساتھ کئی امن معاہدے کیے۔ ٹی ٹی پی کے برعکس اںہوں نے پاکستانی فوج پر حملے نہیں کیے اور اس پر ان کا ٹی ٹی پی سے اختلاف بھی رہا اور بعد میں انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دوہزار چھ کا امن معاہدہ انہوں نے افغان طالبان کے دباؤ پر کیا تھا۔ شمالی وزیرستان میں قیام کے دوران انہوں نے کبھی کبھی ڈرون حملے کے بعد پاکستانی فوج پر حملے کیے لیکن زیادہ تر اپنی توجہ افغانستان میں امریکی فوجوں پر رکھیں۔ دوہزار نو میں انہوں نے افغان طالبان کے اصرار پر بیت اللہ محسود اور مولوی نظیر کے ساتھ مل کر اتحاد المجاہدین برائے شمالی وزیرستان بنائی۔ ملا عمر اور اسامہ بن لادن کو اس تنظیم نے عسکریت پسندوں کا رہنما قرار دیا۔

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد گل بہادر افغانستان فرار ہوگئے اور ان کے گروپ نے ٹی ٹی پی میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔